Monday, March 31, 2025

زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں

 


زندگی کے کئی ایک لمحے بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ بندہ بار بار سوچے، تو بار بار وہی فرحت اور وہی تازگی محسوس ہوتی ہے۔ 
ابھی زارا کی شادی نہیں ہوئی، ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی، لیکن میں اور میری بیوی اس کے منگیتر کو اپنا بیٹا ہی سمجھنے لگے ہیں۔ شائد اس کی پرسنیلٹی ہے، یا شائد میری اور میری بیوی کی پوزیٹو سائڈ دیکھنے کی صلاحیت ہے، کہ ہمیں اس کا سوچ کر ہی محبت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم اس کی باتیں کر کر کے خوش ہوتے ہیں، ہم اس کی باتوں کے مطلب لے لے کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم جگہ جگہ پر سوچتے ہیں، کہ اس نے یہ کیا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہے، وہ فیوچر میں ایسا ہسبنڈ ثابت ہو گا۔ 
زندگی کا یہ دور مجھ سے بہت اوجھل تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، کہ داماد کا رشتہ بھی دنیا کے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ہے۔ 
اس کے بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ دو دن سے ہسپتال میں تھا۔ آنے جانے والوں کو ڈیل کرنا، اور ڈاکٹروں سے بات چیت رکھنا سب اسی کی ذمہ داری تھی۔ میں اور میری بیوی ہسپتال پہنچے، تو وہ ہمیں لینے ہسپتال کے گیٹ تک آیا۔ تھکن اور نیند کی کمی اس کے چہرے سے عیاں تھی، لیکن چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ہمیں بہت پیار آیا۔ ہم جتنی دیر بھی مریض کے بیڈ پر بیٹھے رہے، وہ ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ 
چھوٹی چھوٹی سی خوبصورت باتیں۔ زندگی کے نئے سفر، نئے دور کے نئے تقاضے۔ نئے رشتوں کی خوشی، نئے رشتوں کا احترام۔ پتہ نہیں کیا کچھ تھا اس تھوڑی دیر کی سٹنگ میں۔ ویسے تو ہم مریض کی عیادت کو آئے تھے، لیکن ہمارے بلال کا بیٹھنا اٹھنا اتنا خوبصورت تھا، کہ ہم اسی میں مگن ہو گئے۔ 
مجھے زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ اصل میں یہ بہت بڑی بڑی خوشیاں ہوتی ہیں۔ رشتوں کے بننے اور لوگوں کے قریب آنے کا پروسس بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ کیسے تھوڑی تھوڑی سی انڈرسٹینڈنگ پیدا ہو رہی ہوتی ہے، کیسے تھوڑا تھوڑا سا ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہوتے ہیں ہم لوگ۔ 
میری بیوی کہتی ہے ”بلال مجھے چائے پلا دو کسی طرح، بہت لمبا سفر تھا فیصل آباد کا۔ عید کا رش اور سواریوں کا ہجوم، میں نے کبھی زندگی میں اتنا تھکا دینے والا سفر نہیں کیا“۔
بلال ہنسنے لگا۔ ”اچھا باجی میں آپ کے لئے چائے لاتا ہوں۔ بھائی جان کا تو روزہ ہے شائد“۔ 
بلال چائے لینے چلا گیا۔ ساتھ ایک پراٹھا بھی بنوا لایا۔ ہم تھوڑی دیر کے لئے کینٹین کے سائے میں جا بیٹھے۔ کیسے خوبصورت لمحے تھے۔ میں سوچ رہا تھا، یہ لڑکا میری زارا کی زندگی کے دکھ سکھ کا ساتھی بننے والا ہے۔ مجھے اس پر اور بھی پیار آنے لگا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنی ساس کی بہت سی باتیں یاد آتی ہیں۔ سادہ سی خاتون تھیں، لیکن بہت عقل کی باتیں کرتی تھیں۔ کہتی تھیں، بیٹیاں دے کر بیٹے لیتے ہیں ماں باپ۔ داماد بیٹے ہی ہوتے ہیں۔ مجھے ان کی اس بات میں رائی برابر بھی شک محسوس نہیں ہوتا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہاسپٹل کی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔ واپس آیا تو میری بیوی کہتی ہے، بھائی جان کے ہاں چلتے ہیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ 
بلال کہتا ہے، آپ بیٹھیں میں اوبر کرواتا ہوں۔ 
میں نے اسے لپٹ لپٹ کر گلے لگایا، یار کوئی بات نہیں، یہ ہاسپٹل کے گیٹ سے رکشہ مل جائے گا، میں چلا جاؤں گا۔
”نہیں بھائی جان، میں اوبر کروا دیتا ہوں“۔ 
اس کے کہنے میں ایسی خوبصورتی تھی، کہ میں انکار نہ کر سکا۔ مجھے ڈر تھا، میں اس سارے خوبصورت منظر کو خراب نہ کر دوں۔ ابھی تک ایک ایک لمحہ خوبصورت تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نے نہ صرف اوبر کروائی، بلکہ اس کا کرایہ بھی دیا۔ 
”یار بلال، میری بات سن، یار۔۔۔۔۔“
”بھائی جان کوئی بات نہیں“ وہ ہنسنے لگا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا، یار میں اسے روک نہیں سکا۔ ٹھیک ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
”ویسے آپ بھی امی کو اسی طرح رکشہ کروا کر دیتے تھے۔ کرایہ بھی دیتے تھے۔ امی نے گھر آ کر کہنا، اور ہم لوگوں نے حیران ہونا۔ اللہ نے آپ کو بھی آپ جیسا ہی داماد دیا ہے“ میری بیوی نے مسکرا کر پچیس سال پہلے کی کوئی بات دہرائی۔ 
میں اپنی بیوی کی یادداشت پر حیران تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ میں نے ایسا کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے دیکھا جائے تو یہی کمائی ہوتی ہے انسان کی۔ ایسی ہی کوئی یادیں، جو کبھی اپنے ذہن میں اور کبھی کسی دوسرے کے ذہن میں محفوظ ملتی ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن ہو گئے ہیں اس بات کو، لیکن بلال کی باتیں، اس کے قریب بیٹھنے کی فیلنگز، اس کے نئے نئے سے، جھجک جھجک سے بھرے رویے، سب کچھ کتنی ہی بار یاد کر چکے ہیں ہم۔ زارا سارا اور حسن کتنی ہی بار پوچھ چکے ہیں یہ سب، اور کتنی ہی بار اس کی مختلف انٹرپریٹیشنز کر چکے ہیں، لیکن ابھی تک ان باتوں اور رویوں کی خوشبو ویسی کی ویسی محسوس ہو رہی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات دراصل یہ ہے کہ انسان کا اپنی بیوی سے رشتہ، اپنے سسرال سے رشتہ، اپنی بہو سے، اپنے داماد سے رشتہ، اپنے بچوں کے سسرال سے رشتہ، یہ سب رشتے شائد بہن بھائیوں،  بیٹے بیٹیوں ، اور والدین کے رشتوں سے بھی خوبصورت  ہوتے ہیں، یا زیادہ نہیں تو ان جیسے ہی خوبصورت  ہوتے  ہیں۔ بس کبھی انسان اس اینگل سے دیکھ لے ایک بار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اللہ تعالیٰ ہمارے رشتوں میں محبت اور خوبصورتی عطا فرمائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
 

Sunday, March 30, 2025

اگر ہمارا محبوب ہمارے ساتھ نہیں بیٹھا


 یار اگر ننشت با ما نیست جائے اعتراض
پادشاہ کامران بود از گدایان عار داشت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمارا محبوب ہمارے ساتھ نہیں بیٹھا تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ خوشبخت بادشاہ تھا، اور فقیروں کے ساتھ بیٹھنے سے شرم کھاتا تھا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق حقیقی کی خوبصورتی بھلا کیا ہے، بندہ سر اٹھانے کا سوچ ہی نہیں پاتا۔ بندے کو سوچ ہی نہیں آتی کہ مجھے توجہ نہیں مل رہی اور کسی اور کو توجہ مل رہی ہے۔ بندہ چھیننے اور مالک بننے کے تصور سے بھی دور رہتا ہے۔ بندہ محبوب کو اپنے مطابق بنانے کی بھی نہیں سوچتا۔ 
بندہ ہر پل اچھا ہی سوچنے کی کوشش کرتا ہے، اچھا ہی محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم: حاوی شاہ


Friday, March 28, 2025

مجھے جب اللہ تعالیٰ سے محبت کا تصور لینا ہو


مجھے جب اللہ تعالیٰ سے محبت کا تصور لینا ہو تو حافظ کی شاعری پڑھ لیتا ہوں۔ کیسی خوبصورت دنیا ہے محبت کی، کیسا خوبصورت انداز ہے حافظ کا۔
میں نائنتھ ٹینتھ کا سٹوڈنٹ تھا جب میں نے پہلی بار دیوان پڑھا تھا۔ والد صاحب کی کتابوں میں ایک کتاب نظر آئی جو بغیر جلد کے تھی۔ فارسی لیکن اردو ترجمے کے ساتھ۔ میں نے پہلا صفحہ پڑھا، دوسرا صفحہ پڑھا اور پڑھتا ہی چلا گیا۔
میں کتاب بک بائنڈر کے پاس لے گیا، جلد کروائی، اور فارسی سیکھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن۔ سال سال دو دو سال، پانچ پانچ سال گھوم پھر کر، پھر دیوان کھول لیتا ہوں، پھر عشق و مستی کی اس کیفیت میں چلا جاتا ہوں، جو زندگی کا حاصل وصول لگتی ہے۔ کسی ایک کیفیت یا حالت پر ٹھہرنا میری فطرت میں نہیں ہے۔ لیکن جو عشق و محبت کی دنیا میں دل لگتا ہے، وہ کسی عقل و خرد کے عالم میں نہیں لگتا۔
زندگی عشق حقیقی کے بغیر فضول ہے۔ وہ انسان ہی کیا جس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کا تصور نہ کیا۔ حافظ کی شاعری میں وہ تصور بار بار ملتا ہے۔ تصور کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، ایک دنیا سے دوسری دنیا کی سیر ضرور کر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو عشق حقیقی کا مسئلہ یہ رہا ہے، کہ اسے عشق مجازی میں ہی لکھنا پڑتا ہے، لیکن عشق مجازی کو عشق حقیقی کا روپ دینا بھی ایک بڑی پرانی روایت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی تصویر کشی کی ہے عشق مجازی کی۔
تمہیں پتہ تیری زلف کے پیچ میں یہ تل کیسا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو جیم کے دائرے میں پڑا نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے عیسی نفس، میرے جسم پر تیرے سرو قد سائے کا وجود پتہ ہے کیسا ہے، اس جان کے جیسا ہے، جو تیرے ہاتھ لگانے سے سوکھی ہڈیوں میں پڑ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے میری جان جیسے، میرا دل تجھے دیکھنے کی خواہش میں اس طرح ہو چلا ہے، جیسے کسی راستے کی ہوا کے پاؤں میں پڑی ہوئی دھول ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شخص کہ جسے کعبہ کے علاوہ کہیں نہ ہونا چاہئے تھا، میں نے دیکھا وہ تیرے لبوں کی یاد میں میکدے کے دروازے پر پڑا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آخری شعر میں پتہ نہیں کون سی رمز ہے محبت کی، کہ دل پھڑک اٹھتا ہے۔ یہ ہے عشق حقیقی، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت۔ کیسے انسان دنیاوی مقام و مرتبے کو چھوڑ کر، کسی اور دنیا کی گداگری قبول کر لیتا ہے۔ کیسے اللہ تعالیٰ کی محبت اسے خوشی غم، عزت ناموس، نفع نقصان سے ماورا لے جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک کم ہمت اور کم حوصلہ انسان ہوں، لیکن میرا دل بڑا کرتا ہے، کبھی اس عشق و محبت کی دنیا میں کچھ لمحے گزار آؤں۔ وہ دنیا کیسی خوبصورت ہو گی، جس کا تصور ہی اتنا خوبصورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے گالوں کے فردوس کی مہکتی زلفیں چھوڑ کر، وہ کون سا طاؤس ہے جو جنت میں اڑا پھرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم: حاوی شاہ

Wednesday, March 19, 2025

افطاری ٹائم ہی ہمارا فیملی ٹائم بن چکا ہے۔

آج کل افطاری ٹائم ہی ہمارا فیملی ٹائم بن چکا ہے۔ بچے اپنے اپنے کالجوں، یونیورسٹیوں سے آ کر سو جاتے ہیں، میں بھی سکول سے آ کر نیچے ہی رہتا ہوں۔ بس آوازیں سنتا ہوں اپنی بیوی اور کسی اور بچے کی، کسی اور بچے کو بلانے کی، افطاری کا وقت قریب ہو رہا ہے، جلدی کرو، وغیرہ وغیرہ۔ 
میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ بچے بڑے ہو جائیں، تو ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی اپنی مصروفیتیں، اپنی دلچسپیاں اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے کارنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال ہم افطاری پر اکٹھے تھے، اور زارا کی اینگیجمنٹ ڈسکس کر رہے تھے۔ آجکل ہمارے سارے ٹاپکس سمٹ کر زارا کی اینگیجمنت تک آ گئے ہیں۔ بس اسی کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ مجھے اچھا لگتا ہے، میں ساری زندگی اس وقت کا انتظار کرتا رہا ہوں، جب ماں باپ بچوں کی شادی شروع کرتے ہیں، ہلکی ہلکی باتیں ہوتی ہیں، پھر کسی جگہ آنا جانا ہونے لگتا ہے، اور پھر اینگیجمنٹ ہو جاتی ہے۔ 
میری کوشش ہوتی ہے بچوں کو سنوں، ان کی ایک دوسرے سے نوک جھونک سنوں۔ ہم زارا کے سسرال سے ہو آئے ہیں دو تین بار۔ وہ بھی ہو کر گئے ہیں ہمارے ہاں سے۔ محبتوں کا ایک خوبصورت سفر شروع ہے۔ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں زارا کے سسرال والے، اس کا ہونے والا ہسبنڈ۔ پتہ نہیں کہاں سے محبت بھر گئی ہے دل میں۔ میری بیوی تو اس کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا ہے کہ حسن کے علاوہ بھی اسے کوئی نظر آ سکتا ہے۔ 
بچے اسے چھیڑتے ہیں، کہ ماما ایسے بات کرتی ہے، جیسے زارا کے ہسبنڈ کو ڈھونڈا نہیں، چنا نہیں، بنایا ہو ماما نے۔ ہر ایک کو اپنے مطابق سوچنے کا کہتی رہتی ہیں۔ 
زارا کنسویاں لیتی رہتی ہے۔ ہم ایک چیز پر سٹرکٹ ہیں، کہ لڑکے لڑکی کی بات نہیں ہو گی شادی سے پہلے۔ مجھے اپنا داماد بہت اچھا لگتا ہے۔ بہت شریف انسان ہے۔ ہم نے دیکھی ہی شرافت ہے، دیکھا ہی کردار ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال شام کی افطاری پر حسن ہنس رہا تھا:
”زارا پاپا نے سسٹم کریک کر لیا ہے۔ پاپا دو سو روپے میں فروٹ چاٹ کا سامان لے آئے ہیں۔ زارا لوگ ایک ہی شکوہ شکایت کرتے ہیں، کہ ہزار روپے بھی کم ہیں فروٹ چاٹ کے لئے۔ ہم دو سو روپے میں اچھا خاصہ انجوائے کر رہے ہیں، پانچ لوگ“۔
”اس دن پاپا ڈیڑھ سو میں لے آئے تھے۔ اور مزے کی بات یہ ہے، کہ پاپا نے میرے ساتھ ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک ریڑھی پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں، ڈیڑھ سو روپے ہی ہیں میرے پاس، ایک سیب، ایک امرود، ایک خربوزہ، کچھ سٹرابری اور دو چار کیلے دے دو۔ ڈیڑھ سو میں آ ہی جائے گا یہ سب کچھ۔ اس دن بھی ہم سب نے کھا لیا تھا“ زارا نے کھل کر کہا۔
”اور ماما کی کرڈ ڈالنے والی ٹیکنیک“ سارا مسکرائی۔ 
”پاپا اس ریڑھی والے کو کہیں سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے کے پیکٹ بنا کر رکھ لے، لوگ ہنستے ہنستے لے جائیں گے“ حسن ہنسا۔ 
”ساتھ ایک چھوٹی سی دہی بھی ڈال دے پیکٹ میں“ میری بیوی نے قہقہہ لگایا۔ 
”یار بھائی، زارا تو ایسے ہی شرمندہ ہو رہی تھی، اس میں شرم کی کون سی بات ہے“۔ میں نے کھسیانی سی ہنسی ہنستے کہا۔ 
”نہیں شرم کی کوئی بات نہیں“ زارا میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ”بھائی میں نے پاپا کو میڈیکل سٹور میں جانے سے روکا۔ میں پاپا کو باہر کھڑا کر کے خود اندر گئی، اور ایک منٹ بھی نہیں لگا ہو گا باہر آنے میں، اور میں نے دیکھا پاپا ریڑھی سے فروٹ چاٹ کا سامان بنوا رہے ہیں“۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی خوبصورت وقت تھا افطاری کا۔ پلیٹوں اور چمچوں کی چم چم تھی، اور قہقہے، اور ہنسی، اور مسکراہٹیں۔ میں نے تو دو تین چمچ فروٹ چاٹ بچا لئے تھے، کہ کھانا کھا کر آخری نوالہ انہی کا لوں گا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، ہم کافی دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے، کہ مہنگائی کے دور میں بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے سرواؤل کا۔ زارا کی اینگیجمنٹ کا موضوع بھی خوب چلا۔ اور مغرب سے عشاء تک کا سارا وقت بس قہقہے تھے، اور مسکراہٹیں اور مذاق۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیملی ایسی ہی ہوتی ہے۔ لاکھ اختلافات ہوں، لاکھ مسائل ہوں، ہنسنا نہیں بھولنا چاہئے۔ مذاق نہیں ختم ہونا چاہئے۔ دوسروں کے پوزیٹو پہلو دیکھیں۔ جو بات کسی کو بری لگنے کا اندیشہ ہو، مت کہیں۔ کبھی اپنے گھر کے کسی ممبر کو سبق سکھانے کی کوشش نہ کریں۔ کبھی کوئی بدلہ نہ لیں۔ 
میں کہتا ہوں، زارا زندگی میں ایک کام کرنا، نہ خود کرنا، نہ سننا، اپنے سسرال کے شہر کے بارے میں بھی کوئی بات نیگیٹو نہ سوچنا، منہ سے بولنا تو بہت دور کی بات ہے۔ میں اپنی ساری زندگی کا نچوڑ بتا رہا ہوں۔ 
میں نے خود بھی تہیہ کر رکھا ہے، اور بچوں کو بھی یہی سکھا رہا ہوں، بس ہر وقت ان کی تعریف کرنی ہے، ان سے محبت رکھنی ہے۔ ان کی اچھی باتیں دیکھنی ہیں۔ آپ کو اور کچھ نظر ہی نہیں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے خاندانوں میں خوشیاں اور خوبصورتیاں عطا فرمائے، آمین۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ