Saturday, May 31, 2025

صحیح البخاری ، کتاب الرقاق

 

صحیح البخاری

کِتَاب الرِّقَاقِ

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں 

اڑتیس: بَابُ التَّوَاضُعِ

اڑتیس: عاجزی کرنے کے بیان میں۔

حدیث نمبر چھ ہزار پانچ سو دو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(حدیث  قدسی) حدثنی محمد بن عثمان بن کرامۃ، حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سلیمان بن بلال، حدثنی شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، عن عطاء، عن ابی ہریرۃ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن اللہ قال: ”من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب، وما تقرب إلی عبدی بشیء احب إلی مما افترضت علیہ، وما یزال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتی احبہ، فإذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ، وبصرہ الذی یبصر بہ، ویدہ التی یبطش بہا، ورجلہ التی یمشی بہا، وإن سالنی لاعطینہ، ولئن استعاذنی لاعیذنہ، وما ترددت عن شیء انا فاعلہ ترددی عن نفس المؤمن یکرہ الموت، وانا اکرہ مسائتہ“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ترجمہ)

مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حدیث پاک سے مجھے جو معلوم ہوا:

۱۔ اللہ کا ولی ہوتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کے دشمن کو اپنا دشمن شمار کرتا ہے۔ بین السطور ہم کہہ سکتے ہیں، کہ اپنے ولی کے دوست کو اپنا دوست شمار کرتا ہے۔ 

۳۔ اللہ تعالیٰ کا قرب کوئی شے ہے، اور حاصل بھی ہوتا ہے۔

۴۔ فرائض کی ادائیگی نوافل کی رغبت پیدا کرتی ہے۔

۵۔ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کوئی وجود ہے، کوئی شے ہے۔ 

۶۔ جب اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے تو بندہ بدل جاتا ہے۔ اس کے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں، بس وہی کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے۔ 

یعنی تبدیلی ناگزیر ہے۔ 

۷۔ اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی مرضی ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی بندے کی اپنی مرضی ختم ہو سکتی ہے۔ 

۸۔ اللہ تعالیٰ کی قربت، نفس کی ترغیب ختم کر دیتی ہے۔ 

۹۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے۔ اس کا بندہ جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دیتا ہے۔ یعنی اللہ کے ولی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ 

۰۱۔ اللہ کا بندہ اگر کسی دشمن یا شیطان سے پناہ مانگتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی پناہ عطا فرماتا ہے۔ اللہ کا ولی شیطان سے محفوظ ہوتا ہے۔ 

۱۱۔ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے، اپنے ولی کی جان نکالنے میں تردد فرماتا ہے۔ اسے اچھا نہیں لگتا وہ اسے مارے۔ وہ اسے موت کی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔

۲۱۔ جب اللہ کے بندے، اللہ کے ولی کی مرضی ہی ختم ہو گئی، اسے شیطان سے پناہ بھی مل گئی، تو باقی کیا رہ گیا۔ اب اللہ کا ولی جو کر رہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہی کر رہا ہے۔ وہ ایسا کوئی کام کر ہی نہیں رہا جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ یہ معاملہ کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور فرماتا ہے۔ ایسے لوگ کتنے ہیں، اس بات کا تو علم نہیں، لیکن یہ کہ ایسے لوگ موجود ہیں، یہ حقیقت ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ موجود ہو گا، اور عام لوگ اس کے پاس جاتے ہوں گے۔ اس کی قربت میں بیٹھتے ہوں گے۔ اس سے دعا کی درخواست کرتے ہوں گے، اور وہ دعا کرتا ہو گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے اس ولی کی دعا قبول فرماتا ہو گا۔ ظاہر ہے اللہ کا ولی وہی دعا کرتا ہو گا، جو اللہ چاہتا ہو گا کہ قبول فرما لے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو اپنی پناہ میں رکھتا ہے۔ 

اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی بناتا ہو گا، تو اپنے عام لوگوں کی خدمت کے لئے ہی بناتا ہو گا، کہ عام لوگ اس کے پاس بیٹھ کر تزکیہ کریں۔ اگر کوئی دنیا کی کسی ضرورت کے تحت اللہ کے ولی کے پاس آتا ہے، تو کچھ نہ کچھ تزکیہ تو ہو ہی جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہی تزکیہ بڑھ کر ایمان بن جاتا ہو، اور ایک دن وہ اللہ کے راستے پر آ جاتا ہو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا اللہ تعالیٰ کا ولی مرنے کے بعد مٹی ہو جاتا ہے، کیا وہ بندہ وہ ولی جسے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پناہ دے رکھی ہو، جس کی دعائیں قبول فرماتا ہو، جس کے اعضاء و جوارح اللہ تعالیٰ کی مرضی سے کام کرتے ہوں، کیا موت آنے سے اس کی یہ نعمتیں چھن جاتی ہیں،  اس کا یہ مقام منقطع ہو جاتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ اپنے ولی سے اس کی موت کے بعد بھی وہ کام نہیں لیتا، جو اس کی زندگی میں لیتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحیح صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ




Wednesday, May 28, 2025

مجھے اٹینڈنٹ بن کر اپنے بھائی


 مجھے اٹینڈٖنٹ بن کر اپنے بھائی کے ساتھ ہسپتال رہنا تھا، اور حسن نے اپنی ڈیوٹی پر جانا تھا ہسپتال۔ میری بیوی نے اسے میرے ساتھ جوڑا کہ میں اسے اس کے ہسپتال چھوڑ کر آگے اپنے بھائی کے پاس چلا جاؤں۔ ہم دونوں گھڑی شاہو سے دھرم پورہ جا رہے تھے، اور شائد دونوں کسی موضوع کا سوچ رہے تھے، کہ بات بھی ہو جائے، اور راستہ بھی کٹ جائے۔ 

ؔ”اور پھر بھیا کوئی بات ہی سناؤ یار“ میں نے سٹارٹ لیا۔ 

”بس وہی سپرچؤل اویکننگ کا سوچ رہا ہوں، کہ یہ کیا ہوتی ہے“ حسن نے کچھ دن پہلے کا سوال دہرایا۔ 

”یار میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ توجہ سے سننا“۔

”جی۔“

حسن نے میرے پیچھے بیٹھے بیٹھے کان میرے کاندھے کے قریب کر لئے۔ 

”بھائی، اپنے ارد گرد کی عورتوں کا احترام کرو، زیادہ سے زیادہ۔ انہیں غلط نظر سے نہ دیکھو، اور ان سے آئی کونٹیکٹ نہ کرو۔ اگر کوئی سوچ آئے تو اپنے دماغ کو جھٹک دو۔ ان کے بارے میں کوئی تصور نہ پیدا ہونے دو۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہو؟“ میں نے حسن کو متوجہ کیا۔

”سمجھ رہا ہوں“۔

”اپنی نظر اور اپنی سوچ صاف رکھو، چاہے کچھ بھی ہو جائے“ میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ 

”بھائی سپرچؤل اویکننگ کے اور بھی راستے ہوں گے، لیکن یہ بہت خوبصورت راستہ ہے۔  آپ کا رویہ نرم رہے گا، آپ کا لہجہ شائستہ رہے گا، اور آپ غصے پر قابو پا لو گے۔ آپ کی زندگی میں اچھی چیزیں آنے لگیں گی۔ آپ کا کردار خوبصورت ہو جائے گا، اور آپ کے دل و دماغ میں سکون ہی سکون ہو گا۔ آپ کو کسی سے حسد، نفرت لالچ، انتقام وغیرہ کے جذبات محسوس نہیں ہو گے۔ 

بھائی ایک اعلیٰ اور بلند کردار کی جتنی بھی خصوصیات ہیں، آپ کے اندر در آئیں گی، آپ اسوہئ حسنہ کے قریب ہو جاؤ گے۔ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب پیدا ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ آپ پر پوزیٹو انڈرسٹینڈنگ کے دروازے کھولے گا“۔

ٹریفک کے شور، اور ڈرائیونگ کی احتیاط میں میں کچھ جملے بار بار دہرا رہا تھا۔ میں بار بار پوچھ رہا تھا، آپ میری بات سن رہے ہو، آپ میری بات سمجھ رہے ہو۔ حسن ’سن رہا ہوں‘، ’سمجھ رہا ہوں‘ جیسے چھوٹے چھوٹے جواب دے رہا تھا، اور ہم انتہائی سلو سپیڈ پر پہلا اور دوسرا پل کراس کر چکے تھے۔ 

”بھائی اگر کوئی ایسا نہیں کرتا، تو نفرت، حسد، انتقام، لالچ کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ اور اکثر اوقات واپسی ممکن نہیں رہتی۔ زندگی میں نیگیٹوٹی آ جاتی ہے، اور مایوسی، ڈپریشن، اینگزائٹی جیسی مصیبتیں بھی نازل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سکون ختم ہو جاتا ہے۔  اور انسان کسی عبادت میں انہماک محسوس نہیں کرتا۔ اکتاہٹ اور منتشر خیالی مستقل ساتھ رہنے لگتے ہیں“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی خواتین کا احترام، چاہے گھر ہو یا باہر، مسلم ہوں یا غیرمسلم، ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ میرے خیال میں تو کوئی ایکسکیوز کام نہیں آتا۔ اگر آپ کو نیکی، اور آخرت، اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے راستے پر چلنا ہے، تو یہ ناگزیر ہے۔ لازمی ہے۔ کمپلسری۔ ورنہ بھائی، انہ کان فاحشۃ و مقتا و ساء سبیلا، یہ بہت ہی بے حیائی والا، اللہ تعالیٰ کے غضب کو آواز دینے والا، برا راستہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن کا سٹاپ آ چکا تھا، اور میں اپنی بات بھی مکمل کر چکا تھا کسی حد تک۔ میں نے حسن کو اتارا اور اپنے راستے پر ہو لیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نیکی کی رغبت نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Monday, May 26, 2025

مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار


 مجھے عامر سے مل کر آئے تین چار گھنٹے ہو چکے ہیں۔ میں نے بچوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے بھی کچھ شئیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر میں نے دوسرے موضوعات پر بات چیت کی ہے۔ میں پچھلے دو دن سے ہسپتال میں تھا، اور کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن عامر کا پھٹا ہوا دل، اور اس پھٹے ہوئے دل سے نکلنے والی دردناک آواز مجھے چین سے نہیں بیٹھنے دے رہی تھی۔ اس نے مجھے سلام لے کر کہا، دعا کرنا اللہ تعالیٰ صبر دے دے۔ اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ بتا رہے تھے، کہ اس سے صبر نہیں ہو رہا۔ اس کا دل پھٹا ہوا ہے، اور شائد پھٹتا ہی جا رہا ہے۔ 

بظاہر عامر ایک خوبصورت آدمی ہے۔ دولت، پرسنیلٹی، عادتیں، سب کچھ خوبصورت ہے۔ میرے جیسا آدمی رشک کرتا نہ تھکے۔ شائد زندگی بھی خوبصورت تھی اب تک۔ لیکن اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا، کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری امی فوت ہوئی تھی، تو زندگی ختم ہو گئی تھی۔ فل سٹاپ بھی تھا اور کوئسچن مارک بھی۔ میں کئی دن قبرستان جاتا رہا۔ وہاں جا کر کچھ دیر بیٹھتا اور واپس آ جاتا۔ امی کے فوت ہونے سے سب کچھ ختم ہو گیا ہو جیسے۔ کچھ سمجھ نہیں لگتی تھی کس سے ملوں اور کیا بات کروں۔ دل جیسے پھٹ چکا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر کی آواز سے مجھے ایسے ہی محسوس ہوا جیسے اس کا دل پھٹ چکا ہے۔ کسی بہت بڑے طاقتور ہاتھ نے کچھ نوچ کر نکال لیا ہے اس کے اندر سے۔ جس طرح مرغی کی کھال اتارتے ہیں نوچ کر، جس طرح اس کا دل گردہ نکالتے ہیں نوچ کر۔ ایسے ہی کسی نے سب کچھ نکال لیا ہے نوچ کر۔ 

عامر کی جواں سال بیٹی فوت ہو گئی تھی اچانک۔ اچانک ایک حادثہ پیش آیا، اور سب کچھ اجڑ گیا۔ مجھے لگتا تھا مجھے ایک ایک لمحے کا علم ہے، وہ کس طرح گزرا ہو گا اس حادثے سے۔ کس طرح گزر رہا ہو گا۔ کس طرح انسان ایک ایک پل گنتا ہے بچے بڑے کرتے ہوئے، اور کس طرح آن کی آن میں سب کچھ اجڑ جاتا ہے، سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ انسان بس مرنے کا انتظار کرتا ہے ایسے حادثے کے بعد۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر میرا کلاس فیلو تھا فرسٹ ائیر میں۔ اڑتیس سال پہلے ہم دو سال اکٹھے پڑھے تھے۔ ہم کالج سے پھٹا مار کر میچ کھیلنے جاتے تھے۔ میں ایک پیسیو سا پلئیر تھا، لیکن ساتھ ضرور جاتا تھا۔ مجھے مائیک گیٹنگ کہتے تھے یہ سارے۔ بس وہی ہم لوگوں کی محبت تھی۔ ہم سب چوبیس پچیس کلاس فیلوز کی۔ دو سال بعد ہم زندگی کے دوسرے میدانوں میں کھیلنے چلے گئے۔ اور پھر کئی سال تک ملاقات نہ ہو سکی۔ کچھ پتہ نہیں تھا کون کہاں ہے۔ پھر فیس بک اور واٹساپ پر اکٹھے ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج صبح عامر کی صاحبزادی کی جانکاہ خبر سنی تو جیسے دل بھر آیا۔ عامر جتنا خوبصورت، جتنا محبت کرنے والا، اور خیال رکھنے والا انسان ہے، اس کے ساتھ یہ ایسا سب کیسے ہو سکتا تھا۔ میں نے حسن کو ساتھ لیا، اور جنازے پر پہنچنے کے لئے گھر سے نکل پڑا۔ مجھے نہیں معلوم ہم موٹر سائیکل پر پی آئی اے سوسائٹی میں کیسے پہنچے۔ بیسیوں بار راستہ بھولے، اور بیسیوں بار دوبارہ پوچھا۔ بہرحال پہنچ گئے۔ 

حسن کا خیال ہے عامر انکل نے مجھے نہیں پہچانا۔ لیکن اس کے ہاتھوں کے لمس سے محسوس ہو رہا تھا، اس نے پہچان لیا ہے۔ میں اس کے آدھا سا گلے لگا، اور مجھے محسوس ہوا اس نے مجھے پہچان لیا ہے۔ مجھ سے کوئی لفظ نہیں بولے گئے۔ اس نے بس اتنا کہا، دعا کرنا اللہ پاک صبر دے دے۔ اس کی آواز میرے دل سے ایسے ٹکرائی جیسے چیرتی جا رہی ہو اندر تک، تہہ تک۔ وہ پوری طرح سے رو بھی نہیں رہا تھا، لیکن ایسا لگتا تھا، اس کا روان روان رو رہا ہے۔ آنسو بہا رہا ہے، چیخ رہا ہے۔ انسان پتہ نہیں کیوں چنا جاتا ہے کسی کام کے لئے، کسی غم کسی خوشی کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہر ٹوٹے ہوئے دل کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, May 25, 2025

چھوٹا بھائی ہاسپٹل مین ہے تین چار

 

چھوٹا بھائی ہاسپٹل میں ہے تین چار دنوں سے۔ جناح ہسپتال۔ ہاسپٹل میں رہنے کا تجربہ بڑا عجیب تجربہ ہوتا ہے۔ ہم تیس سال پہلے پندرہ پندرہ بیس بیس دن رہے ہیں ہسپتال میں۔ امی کی بیماری کے دوران۔ پھر ابو کی بیماری کے دوران بھی۔ میں اور میرا بھائی۔ بڑے بھائی فیصل آباد میں رہتے تھے۔ وہ ہسپتال میں گئے تو وہاں بھی ہم ایک دو دن رہے۔ ہسپتال تقریبا ہر جگہ پر ایک جیسے ہی ہیں۔ مریضوں کا تو جو حال ہے سو ہے، لواحقین کا بھی تقریبا ایک جیسا ہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگ گاؤں سے آئے ہوتے ہیں۔ پوری پوری فیملی آئی ہوتی ہے۔ اتنا زیادہ اکوموڈیشن کا بندوبست کر ہی نہیں سکتی حکومت۔ مہمان خانے، قیام گاہیں، دسترخوان، سب کچھ موجود ہے، لیکن لوگ پھر بھی پورے نہیں آ رہے۔ برآمدوں میں، سائیکل سٹینڈوں پر، چھوٹے بڑے لان اور پیچز، کوئی جگہ خالی نہیں ہوتی۔ ہر جگہ پر لوگ کوئی چٹائی، کوئی بستر لگا کر لیٹے ہوتے ہیں۔ 

پاکستان میں کسی بھی شہر میں، کوئی بھی جگہ ہو، ہسپتال کا یہ منظر تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی کی بیماری کے دوران میں ہسپتال رہ لیتا تھا رات، لیکن اب میری عمر کا تقاضا سمجھ لیں، یا اور کوئی بات، اب مجھے بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں نے ادھر ادھر کونوں میں کوئی فٹپاتھ جیسی انتظار گاہوں میں لیٹنے کی کوشش کی، لیکن نہ لیٹ سکا۔ ایک دو بنچوں پر دراز ہوا، لیکن نہ ہو سکا۔ تیسری چوتھی منزل کے دس دس چکر لگا کر ویسے ہی نڈھال ہوا پڑا تھا۔ برآمدے یاد نہیں رہتے تھے۔ ہر بار ایک دو برآمدوں سے واپس آنا پڑا۔ لیکن کرسیوں پر سر نیہوڑائے بیٹھ کر بھی کوئی آرام کا احساس نہ ہو سکا۔ 

جب کہیں جگہ نہ ملی تو واپس بھائی کے پاس آ بیٹھا۔ ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں، اور تہجد اور فجر تک چلتے گئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچوں لوگ جن فیسیلیٹیز کا تقاضہ کرتے ہیں، عقلی طور پر وہ اس قابل نہیں ہوتے، کہ انہیں وہ فیسیلیٹیز مل سکیں۔ ہسپتال کے باتھ روموں سے لے کر لانوں تو بس ایک ہی منظر نظر آتا ہے، کہ لوگوں کو استعمال نہیں آتا۔ انہیں اتنی عقل نہیں ہے کہ ایسی خوبصورت اور قمیتی فیسیلیٹیز کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ جب چیزیں بنتی ہیں، تو کتنی خوبصورت ہوتی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ خراب ہوتی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کا استعمال ان کے مرتبے کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ کہنے کو تو صفائی نہیں ہوتی، احتیاط نہیں ہوتی، لیکن اصل بات یہ ہے کہ استعمال کرنے والے اتنے عقلمند نہیں ہوتے۔ اور جب انہیں عقل دینے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ ان چیزوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، جنہوں نے انہیں نے کم عقل رکھا ہوتا ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ میں وہ بات نہیں کر رہا۔ 

صفائی انصاف کی طرح ہوتی ہے، ڈسپلن کی طرح ہوتی ہے۔ بہت بڑی عقل چاہئے ان چیزوں کو انجوائے کرنے کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہمیں بہت کچھ دے بھی دیا جائے، لیکن ہمارے پاس عقل نہ ہو، تو ہم بہت جلد وہ سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی بہت بہتر ہے۔ عملہ بھی بہت محنت سے کام کر رہا ہے۔ لیکن جتنی عقل اس ایمرجنسی کو بہتر رکھنے کے لئے درکار ہے، وہ اتنی نہیں ہے۔ صفائی اور خاموشی بہت بڑے ڈسپلنز کے نام ہیں۔ اور ان سے جو عقل پیدا ہوتی ہے وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔ ڈسپلن قائم رکھنے والی عقل تو ویسے ہی بہت بڑی عقل ہوتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال کل میں سکول کے پیپرز بھی ساتھ لے گیا۔ میرا خیال تھا کچھ ٹائم نکال کر چیک کر لوں گا۔ لیکن میں نے جہاں بھی پیپرز نکالے سارے لوگ میری طرف دیکھنے لگے۔ پیپرز چیک کرنے کے بارے میں ہر انسان کا خیال مختلف ہے، خاص طور پر جو ٹیچرز نہیں ہیں۔ میں نے جب لوگوں کو متوجہ دیکھا تو مجھ سے کام نہ ہو سکا، اور میں بنڈل واپس ڈال کر بیٹھ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا، وہ جہاں نماز پڑھنے کے لئے چٹائی بچھی ہوئی ہے، وہاں بیٹھتا ہوں جا کر، پنکھا بھی لگا ہوا ہے، اور لوگ بھی نسبتا کم ہیں۔ میں وہاں گیا تو مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج کے کچھ ایلومنی نے وہاں ایک لائبریری بنا رکھی ہے۔ نماز میں تقریبا سارے ہی نمازی اس ایلومنی لائبریری کے طالبعلم ڈاکٹرز تھے۔ میں نے ایک ڈاکٹر لڑکے کو بلا کر کہا، کہ فرش پر بیٹھ کر میرے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں، میں نے پیپرز چیک کرنے ہیں، اور مجھے کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی بیٹھنے کو۔ اندر کوئی ایکسٹرا چئیر مل سکتی ہے کیا۔ وہ بچہ مسکرایا، اور کہنے لگا، آئیں میں دیکھتا ہوں۔ اندر جا کر اس نے ایک چئیر پر بیٹھنے کی آفر کی۔ مجھے لگا وہ کسی سٹوڈنٹ کی ہے، وہ آج نہیں آیا ہو گا۔ اس پر کتابیں پڑی ہوئی تھیں میڈیکل کی۔ میں نے دیکھا ایک بڑی سی میز پڑی ہے، جیسی کسی زمانے میں اخبار و رسائل پڑھنے کے لئے ہوتی تھی کالجوں میں، اور ساتھ ہی ایک لکڑی کی کرسی بھی پڑی تھی۔ میں چپ کر کے وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے پیپرز نکالے اور چیک کرنے لگا۔ پرسکون ماحول، کسی کے دیکھنے کا کوئی ڈر نہیں، اور ٹیبل چئیر کی کمفرٹ، مجھے لگا میں کسی جنت میں آ بیٹھا ہوں۔ اے سی کی چل اپنی جگہ پر۔ میں نے دیکھا بچے چھوٹا موٹا کھانا بھی وہیں منگوا لیتے ہیں۔ مجھے بھوک تو دوپہر سے ہی لگی ہوئی تھی۔ اب اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی۔ میں کچھ پیپرز چیک کرنے کے بعد، بھائی کے پاس آیا، اپنا دوپہر کا پڑا کھانا اٹھایا، اور واپس لائبریری میں آ بیٹھا۔ بھائی کے پاس کچھ اور ممبرز آئے ہوئے تھے فیملی کے۔ مجھے لائبریری میں بیٹھنے کا موقع مل رہا تھا، میں بیٹھ گیا۔ میرے پیپرز کا بنڈل اسی جگہ پر پڑا تھا، جہاں میں رکھ کر گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کسی نے مجھے کہا تھا، کہ یہاں کوئی کسی کی چیز نہیں اٹھاتا، ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ جو کچھ جہاں ہوتا ہے، کئی کئی دن وہیں پڑا رہتا ہے۔ 

میں نے لائبریری سے باہر جو حالات دیکھے تھے، میں سوچوں، یہ پیارے پاکستان کے پڑھے لکھے ترین بچے ہیں۔ انہوں نے یہ چیز سیکھ لی ہے، کہ کسی کی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتے، جو کوئی جہاں کچھ رکھ کر گیا ہے، وہیں سے اٹھا لے گا آ کر۔ میں سوچوں یہ لائبریری والا سین باہر بھی ہو جائے گا ایک دن۔ جب ہم پڑھ لکھ جائیں گے، ایک پڑھی لکھی قوم بن جائیں گے، تو ہم لائبریری سے باہر بھی ایک دوسرے کی چیزوں کو چھیڑنے سے باز آ جائیں گے۔ ہمارا لائبریری والا ڈسپلن ہر جگہ پر قائم ہو جائے گا۔ 

کوئی شور نہیں کرتا تھا، کوئی بات نہیں کرتا تھا، کوئی کسی کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ سب اپنے اپنے کام، اپنی اپنی سٹڈی میں مصروف تھے۔ میں وہاں تین چار گھنٹے بیٹھا رہا۔ میں نے پورا بنڈل چیک کر لیا۔ لیکن میں نے کسی کو کسی سے بات کرتے، ہنستے، یا گپ شپ لگاتے نہیں دیکھا، نہیں سنا۔ جو اپنا کام کر لیتا، چپکے سے بیگ اٹھاتا اور دھیان سے دروازہ کھولتا ہوا باہر نکل جاتا۔ ”ہم ایک اچھی اور خوبصورت قوم ہیں۔ کہیں کہیں ہی سہی، ہمیں اپنے اندر ایک بہت بڑی قوم کی جھلک نظر آ ہی جاتی ہے“۔

ہم ٹیچر لوگ ویسے بھی بچوں میں خوش رہتے ہیں۔ اور پھر لائبریری۔ اتنی زیادہ کتابوں کے درمیان بیٹھنا اٹھنا تو ویسے ہی میرا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ بڑے اچھے دن تھے برٹش کونسل اور امیریکن سنٹر والے۔ مجھے کہیں کہیں یاد آ رہا تھا ان لائبریریز کا ڈسپلن کتنا خوبصورت تھا۔ امیریکن سنٹر میں ایک خاتون ہوتی تھی کتابیں اشو کرنے والے۔ بڑی گریسفل پرسنیلٹی تھی اس کی۔ سفید بال تھے۔ ففٹی کے قریب عمر ہو گی۔ شائد کسی کو یاد ہو۔

میرے اپنے بچے ڈاکٹرز ہیں۔ مجھے ان ینگ ڈاکٹرز میں بیٹھ کر لگ رہا تھا جیسے یہ میرے ہی بچے ہیں۔ زارا جو اپنی لائبریری کی باتیں سناتی ہے، یہ بالکل ویسی ہی لائبریری تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری اگلی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ عقلمند اور مہذب بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Tuesday, May 20, 2025

تین سوچیں جو معمولی رد و بدل

 

تین سوچیں جو معمولی رد و بدل کے بعد، جیسے زندگی ہی بدل دیتی ہیں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے، میری عبادات قبول کر لے، مجھے نعمتوں سے نوازے، تو وارے نیارے ہو جائیں، زندگی بن جائے۔ 

یہ لمحہ زندگی بھر نہیں آتا۔

لیکن اگر وہ سوچے، میں اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جاؤں۔ وہ جو کچھ بھی دے، وہ جس حال میں بھی رکھے، میں اس سے راضی رہوں، تو واقعی وارے نیارے ہو جائیں، اور زندگی بن جائے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ سوچتا ہے میں نفس کے خلاف چلوں، میں نفس کے راستے پر نہ چلوں، اور طرح طرح کی پابندیاں لگاتا ہے، طرح طرح کے مجاہدے کرتا ہے۔ حالانکہ اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ اپنی بات کرنا اور سوچنا ہی چھوڑ دے۔ اپنی فکر کرنا ہی چھوڑ دے۔ بس اللہ تعالیٰ کی بات کرے، نیکی کی بات کرے، اسی کا سوچے، اور اسی کی فکر کرے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ سوچتا ہے میں دوسروں کے کام آؤں، دوسروں کی مدد کروں۔ اسے لگتا ہے میرے پاس تو وسائل نہیں ہیں۔ اسے لگتا ہے لوگ اس کا استعمال کرنے لگیں گے۔ حالانکہ دوسروں کی مدد کرنے کا آسان اور بہترین طریقہ یہ ہے، کہ جو کام وہ کرتا ہے، اس میں دوسروں کی مدد کرنے کا سوچ کر گھر سے نکلنے لگے۔ گھر سے نکلے تو یہ سوچ کر نکلے کہ آج میں اپنی نوکری یا دکان یا بزنس سے لوگوں کا بھلا کرنے جا رہا ہوں، ان کی خدمت کرنے جا رہا ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک ٹیچر ہوں، میں جس دن یہ سوچ کر کلاس میں داخل ہوتا ہوں، کہ یہ بچے میرے ملک کی امانت ہیں، یہ بچے ہزاروں لوگوں کا مستقبل ہیں، یہ بچے اس معاشرے کا آنے والا کل ہیں، اگر میرے آرام سے بولنے سے، پیار سے بولنے سے، انہیں عزت کروانے کا احساس ہو گیا، اچھے برے کی تمیز آ گئی، تو وارے نیارے ہو جائیں گے، زندگی بدل جائے گی، تو اس دن کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی سوچوں کو صحیح سمت دینے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Saturday, May 17, 2025

ہم نے یہی پڑھا سنا تھا


ہم نے یہی پڑھا سنا تھا کہ اسلام کا چھٹا رکن جہاد ہے۔ میرے ذہن میں کچھ اس طرح کا امیج تھا، کہ یہ کمپلسری نہیں آپشنل ہے۔ لیکن آج مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ بھی کمپلسری ہو۔ دوسرے پانچ ارکان کی طرح یہ بھی کمپلسری ہو۔ ہر مسلمان ایسے زندگی گزارے جیسے وہ جہاد پر ہے۔ 

آپ ﷺ   کے زمانے میں ہر مسلمان مجاہد تھا، ہر مسلمان جہاد پر تھا۔ 

ہر مسلمان اللہ کے راستے پر تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دراصل میں نے ایک تصویر دیکھی تھی پچھلے دنوں۔ ایک شہید کی میت کو تابوت میں ڈالا ہوا تھا۔ تابوت کھلا تھا۔ شہید اپنی یونیفارم میں تھا۔ انہی کپڑوں میں جن میں وہ شہید ہوا تھا۔ مجھے محسوس ہوا وہ زندہ ہے۔ 

شہید کے زندہ ہونے کا ایسا احساس مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ 

اس دن سے مجھے ایک عجیب انڈرسٹینڈنگ کا سامنا ہے۔ مجھے شہادت کی طلب محسوس ہونے لگی ہے۔ مجھے کچھ سمجھ آ گئی ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن لوگوں کے عزیز و اقارب اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں، یا پہلے کسی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں، وہ ان کی شہادت پر رشک کریں۔ وہ ان کی زندگی پر رشک کریں۔ ایک مسلمان کا کفن دفن کوئی معمولی خوش قسمتی نہیں ہے، لیکن شہید کا اپنی یونیفارم، اپنے شہادت کے کپڑوں میں جنازہ ہونا، ایک بہت ہی بڑی سعادت ہے۔ ایک شہید کی عظمت کا اعتراف شائد اسی صورت میں کیا جا سکتا تھا۔ شہید کی موت ایسی خوبصورت موت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے موت کہنے سے بھی روکا ہے۔ شہید شہید ہے، شہید زندہ ہے۔ شہید زندہ ہے لیکن ہمیں اس کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ 

کیسی خوبصورتی ہے اس سارے تصور میں۔ بندہ کچھ لمحے کے لئے رک جائے۔ اسی تصور پر کھڑا رہے۔ جن لوگوں نے ہماری زندگیوں، ہماری عزتوں کے لئے جانیں دیں، انہیں مردہ کہنے سے بھی روکا گیا ہے۔ کوئی کہے کہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی نبھائی ہے، کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کہنے سے بچیں۔ ایسا سوچنے سے بھی بچیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں شہادت کی حقیقت اجاگر فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 

Wednesday, May 14, 2025

چار پانچ دن سے بہت اچھا محسوس


چار پانچ دن سے بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ بڑی پرسکون سی پوسٹس پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ کوئی تلخی نہیں ہے۔ خوشی ہے۔ اطمئنان ہے۔ اگر کوئی بات کرتا ہے تو وہ بھی اچھی ہی بات کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو، پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں عزت سے نوازا ہے۔ الحمد للہ۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے آپ کو اچھا سمجھنے، اچھی قوم سمجھنے، اپنے ملک، اپنے ملک کی افواج سے محبت کرنے کا ایک اچھا موقع دیا ہے۔ بڑا اچھا تجربہ ہوا ہے۔ 

پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔ پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔ کیونکہ لوگ براہ راست نہیں دیکھ پائے، اس لئے بہت کچھ دھندلا گیا۔ بہت کچھ محفوظ نہ رہ سکا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باہر نکلتے اور آتے جاتے ہوئے ایک عجیب سا تحفظ محسوس ہو رہا ہے۔ 

تھوڑا سا میں نے بھی فائدہ اٹھایا اس بات کا۔ میں نے اپنے سٹاف روم میں کہا، میں تو پہلے ہی کہتا تھا، کہ ہم اچھی قوم ہیں۔ ہم بڑی اور عظیم قوم ہیں۔ ہمارا ملک بہت عظیم ملک ہے۔ ہماری عوام دنیا کی بہترین عوام ہیں۔ 

میرے کولیگز مسکرانے اور ہنسنے لگے۔ محبت میں۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔۔۔۔۔

پیارا پاکستان۔ 

میں اکثر بات کرتے ہوئے، میرا ملک، ہمارا ملک، کی بجائے ”پیارا پاکستان“ کہتا ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے ان تین چار دنوں میں بہت اچھا محسوس ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے اور بہت بے شمار لوگوں کو ایسا ہی محسوس ہوا ہو گا۔ ظاہر ہے یہ ہمارے شہداء کی قربانیاں ہیں، جو آج ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں۔ 

مجھے وہ احساس نہیں بھولتا جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی بلڈنگ میں ہوا تھا۔ 

میں نے اپنی فیملی کے شجرے لکھے بھی ہیں، اور پڑھے بھی ہیں۔ کئی بار پڑھے ہیں۔ بڑا یونیک احساس ہوتا ہے، اپنی فیملی کے بزرگوں کے نام پڑھنا۔ 

میں جب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی بلڈنگ کے اس حصے میں پہنچا جہاں پاکستان بنانے والوں اور پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں کی تصویریں تھیں، تو مجھے لگا یہ میرے بزرگ ہیں۔ یہ میرے باپ دادا ہیں۔ مجھے لگا میں اپنی فیملی کا شجرہ پڑھ رہا ہوں۔

بات یہ ہے کہ ہماری رگوں میں ان شہداء کا بھی خون دوڑتا ہے، جنہوں نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی قوم کے لئے اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں ہے، کہ وہ اپنے ملک کی قدر کرے، اپنی افواج پر بھروسہ کرے، اور اپنے عوام کی عزت کرے۔ میں نے منفی رویوں کا نتیجہ ایک تو حج کے موقع پر دیکھا تھا، اور دوسرا اس جنگ کے دوران دیکھا ہے۔ انسان کی اعلیٰ ترین عقل یہی ہے، کہ اسے منفی رویوں سے دور رہنے کی عقل آ جائے۔ اچھے الفاظ اور اچھے جذبات سے بات کرنا آ جائے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ کرے ہمیں اپنے ملک و قوم کے لئے یہ اچھی فیلنگز ہمیشہ نصیب رہیں۔ آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ




 

 

Monday, May 12, 2025

درود شریف کی خوبصورتی اور محبت


درود شریف کی خوبصورتی اور محبت دیکھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی درود شریف پڑھتے ہیں۔

۲۔ درود شریف پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جو قبول ہی قبول ہے۔

۳۔ درود شریف کی قبولیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اجر بھی ضرور ملے گا۔ 

۴۔ درود شریف پڑھنے والے بہت جلد اللہ تعالیٰ کے خاص اور محبوب بندے بن جاتے ہیں۔ 

۵۔ درود شریف کے ہر وقت اور ہر حالت میں پڑھنے کی قبولیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر مقصد کے لئے پڑھ سکتے ہیں۔

۶۔ اللہ تعالیٰ درود شریف پڑھنے والے سے راضی ہو جاتا ہے۔ 

۷۔ بزرگوں کے لکھے ہوئے تمام درود شریف مقبول ہیں، لیکن ان سب کا سردار درود ابراہیمی ہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو درود شریف کی حلاوت اور خوشبو نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 

Sunday, May 11, 2025

درود تُنَجِّیْنَا، (تُ نَجّی نَا)، بہت مقبول درود ہے


 درود تُنَجِّیْنَا، (تُ نَجّی نَا)، بہت مقبول درود ہے ہمارے لوگوں میں۔ ہماری خواتین اکثر اسی درود پاک کا سہارا لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی ہیں۔ بہت ہی پیارا درود پاک ہے۔ بندے کو تھوڑی سی بھی عربی پڑھنی آتی ہو، تو اس درود پاک کے الفاظ کی روانی اور مٹھاس جیسے دل میں اترتی محسوس کر سکتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس درود پاک کی برکت کے بہت سے واقعات مشہور ہیں۔ مجھے کسی میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ اگر کومنٹس میں اس درود پاک کی برکت کے تجربات شئیر کرنے کو کہوں، تو ہو سکتا ہے، یہاں بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل جائیں۔

ویسے ایسے تجربات شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، انسپیریشنل ہوتے ہیں، بہت سے لوگوں کو ترغیب ملتی ہے۔  

بہرحال، آپ یہ درود شریف کہیں سے بھی لے سکتے ہیں، کہیں سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ میں یہاں بس ترجمہ شئیر کر رہا ہوں، محض اس درود پاک کی خوبصورتی اور حلاوت کا احساس پہنچانے کے لئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ترجمہ علامہ عالم فقری صاحبؒ کی کتاب سے لیا گیا ہے۔ مجھے اس میں کوئی سقم محسوس نہیں ہوا۔ پڑھیں  اور حظ اٹھائیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ  اور ان کی آل پر ایسی رحمت و برکت نازل فرما جس سے ہمیں تمام ڈر، خوف اور آفتوں سے نجات ہو جائے، اور جس کی برکت سے ہماری تمام حاجتیں روا ہو جائیں، اور جس کی بدولت ہم تمام گناہوں سے پاک و صاف ہو جائیں، اور جس کے وسیلہ سے ہم تیری بارگاہ میں اعلیٰ درجوں پر متمکن ہو جائیں، اور جس کے ذریعے سے ہم زندگانی کی تمام نیکیوں اور مرنے کے بعد کی تمام اچھائیوں سے بدرجہ غایت فائدہ حاصل کریں۔ خدائے پاک تحقیق آپ ہماری دعاؤں کو قبول فرمانے والے، اور ہمارے درجات کو بلند کرنے والے، اور ہماری حاجتوں کو بر لانے والے، اور ہماری بلاؤں کو رفع کرنے والے، اور ہماری سخت مشکلات کو حل کرنے والے ہیں۔ میری فریاد کو پہنچیں اور اسے اپنے حضور تک رسائی دیں، میری عرض قبول فرمائیں یا الٰہی۔ تحقیق توہی ہر چیز پر قادر ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ترجمہ محض اس درود پاک کے معانی شئیر کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔ یہ درود پاک کا   نعم البدل بالکل بالکل نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو درود پاک کی محبت سے مالا مال فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



Saturday, May 10, 2025

میں عشا کی نماز پڑھ رہا تھا


میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں سے میرا دماغ پچیس چھبیس سال پہلے کے زمانے میں چلا گیا۔ مجھے اپنے چہرے میں وہ خوش قسمتی کی علامت یاد آئی جو بعد میں کہیں کھو گئی، اور آج تک نظر نہیں آئی۔ مجھے یاد آیا وہ میری زندگی کا خوش قسمت ترین دور تھا۔ میرے دل کی کیفیت کی کوئی مثال نہیں تھی، اور مجھے اپنے چہرے میں نور جھلکتا محسوس ہوتا تھا۔ بعد میں وہ بھی کہیں گم ہو گیا۔ اس زمانے میں کچھ بزرگوں نے پیش گوئی کی تھی، کہ میں اپنے وقت کا ولی ہوں۔ میں یہ سن کر اور سوچ کر خوش ہوتا تھا، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ 

لیکن پچیس چھبیس سال گزرنے کے بعد مجھے لگتا ہے میں اوندھے منہ پڑا ہوں۔ 

مجھے اس کمپیریزن سے خوف آ گیا۔ 

”وہ حالت اس لئے تھی کہ تو اس میں درود شریف پڑھا کرتا تھا“ میرے اندر کسی نے سرگوشی کی۔

مجھے یاد آیا میں اس زمانے میں ایک کتاب پڑھا کرتا تھا درود شریف کی، سو درود شریف کا مجموعہ۔ میں ہر روز اسے ایک بار مکمل کر لیا کرتا تھا۔ پھر میں نے سو درود ابراہیمی بھی لکھ رکھے تھے۔ میں انہیں بھی ہر روز پڑھا کرتا تھا۔ کئی بار پڑھا کرتا تھا۔ 

مجھے یاد آیا میری یہ روٹین ختم ہو گئی، اور ساتھ ہی وہ نور اور خوش قسمتی کی علامتیں بھی ساری اڑ گئی کہیں۔ پھر کبھی وہ سب کچھ نصیب نہ ہوا۔ مجھے زندگی میں کبھی اتنے پیسے نہیں ملے کہ جمع ہو سکیں، سوائے اس دور کے۔ ان دنوں میرے پاس بہت زیادہ پیسے آ رہے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا دل کیا میں نماز ختم کرتے ہی درود شریف کی کتاب ڈھونڈوں وہ، ڈاؤنلوڈ کروں کہیں سے، شائد پہلے کی کر رکھی ہو کہیں۔ بس وہ کتاب نکالوں اور پڑھنا شروع کر دوں۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔ آئندہ ہی سہی۔

بس یوں کہیں مجھے آئندہ کافی مدت کا لائحہ عمل مل گیا تھا۔ 

میں کسی قدر جلدی جلدی نماز سے باہر آیا، اور درود شریف کی کتابیں ڈھونڈنے لگا۔ عالم فقری صاحب کی مرتب کردہ۔ خزینہ درود شریف۔ 

میں نے پرانے فولڈر کھنگالنے کی بجائے، نئے سرے سے گوگل کیا۔ آرکائیو ڈاٹ آرگ پر مل گئی۔ میں نے ڈاؤنلوڈ کی اور پڑھنا شروع کر دیا۔ ساڑھے نو کا ٹائم تھا، ساڑھے گیارہ بجے تک میں مکمل کر چکا تھا۔ لیکن وہ کتاب پڑھتے ہوئے میں جس دنیا سے گزرا، وہ بیان سے باہر ہے۔ بس یوں سمجھیں جیسے برسوں سے سوکھی پڑی زمین پر بارش برس پڑی ہو۔ جل تھل ہو گیا ہو۔ وہ کتاب واقعی خزانہ ہے۔ بیش بہا خزانہ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ان فیلنگز کا شائد کسی اگلی پوسٹ میں لکھوں، لیکن اس پوسٹ میں بس خزینہ درود شریف کی عظمت لکھنا چاہتا ہوں، جو لکھنے میں نہیں آ رہی۔ شائد اس لئے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ یہ کتاب میرے دل میں کہیں محفوظ تھی اتنے سالوں سے۔ شائد میرے دل کا کوئی حصہ زندہ ہو گیا تھا دوبارہ۔ 

درود شریف کے اور بھی مجموعے ہیں۔ لیکن میں نے یہی ڈھونڈا، یہی۔ اسی پرنٹ میں۔ اسی ایڈیشن میں۔ اور واقعی وہ سب کچھ زندہ ہو گیا۔ سب کچھ دھل گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو درود شریف کی محبتیں اور برکتیں عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

  

Thursday, May 8, 2025

جب بندے کے پاس نماز کے علاوہ

 


جب بندے کے پاس نماز کے علاوہ کچھ نہ بچا ہو۔ کوئی ورد، کوئی وظیفہ، کوئی حفظ، کوئی تلاوت، کچھ نہ بچا ہو۔ بس نماز ہو۔ سادہ سی نماز، الحمد اور قل ہو اللہ والی۔ دس پندرہ منٹ، پندرہ بیس منٹ والی۔ کبھی سب کچھ ہو، اور کبھی کچھ نہ بچا ہو۔ وہ ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے والی نماز، حفظ اور تلاوتوں والی نماز بس یاد بن کر رہ گئی ہو۔ وہ دیکھے سب کچھ واپس ہو گیا ہے۔ بس نماز ہے ایک اس کے پاس۔ 

”بس اب اسی پر گزارہ کرو“ کوئی اسے اندر سے آواز دیتا ہو۔ 

”بس صبح ایک پارہ فجر کی تلاوت، اور پانچ نمازیں۔ سادہ سادہ سی نمازیں“۔

اسے یہ سب کچھ ناکافی محسوس ہوتا ہو۔ 

اسے لگے وہ عنایات کے بعد محروم کر دیا گیا ہے۔ 

وہ کچھ دن اسی حالت پر رہے۔ اور پھر اسے محسوس ہو وہ ایک بہت بڑے کمرے میں اکیلا بیٹھا ہے۔ بس ایک بستر ہے، اور ایک کرسی میز۔ دور دور کھڑکیاں اور روشندان ہیں۔ ایک بڑا سا دروازہ ہے۔ سارا دن ہوا سے اڑتے پردے ہیں، اور چمکدار فرش۔ 

وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہو، اور اسے خیال آتا ہو، بس اب یہی سب کچھ ہے۔ بس اب اسی نماز سے امید لگاؤ۔ بھول جاؤ لمبی لمبی تلاوتوں والی نماز کو۔ 

اسے یہ یاد کر کے دکھ ہو کہ وہ حفظ بھول رہا ہے۔ 

اسے محسوس ہو وہ وقت گزر چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ پچھتائے، اور پھر ایک دن مجبور ہو کر دوبارہ وہی ایک ڈیڑھ گھنٹے والی نماز پڑھے، لمبی لمبی تلاوت والی۔ لیکن نماز کے بعد اس کے دل پر بوجھ سا بڑھ جائے۔ اسے لگے وہ سادہ سی نماز والی تازگی نہیں ملی۔ وہ جو حفظ دہرانے کا ارادہ کیا تھا، وہ بوجھ بن گیا ہے۔ 

تب اسے محسوس ہو وہ آگے آ چکا ہے۔ وہ اس سب سے گزر آیا ہے۔ 

و وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک۔ 

وہ کسی نئی حالت میں داخل ہو چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض دفعہ بندے کی بہت سی عبادتیں، کسی ایک عبادت میں کونسولیڈیٹ کر دی جاتی ہیں۔ بس اب یہ سادہ سی نماز ہی سب کچھ تھی۔ بس اب اسی کا ہو کر رہنا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نمازوں کی محبت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



Tuesday, May 6, 2025

جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے


 جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے، تو اس کی کوئی خواہش نہیں رہتی، کوئی ترجیح نہیں رہتی۔ وہ ہر حال میں راضی ہوتا ہے۔ وہ کہیں آنا جانا نہیں چاہتا۔ نہ ایک جگہ سے دوسری جگہ، نہ ایک حالت سے دوسری حالت۔ اس کے لئے سب برابر ہو جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں کوئی ایک لمحہ آتا ہے، ایک جھونکے کے جیسا لمحہ، اور بندے کو لگتا ہے وہ کوئی اور ہے۔ 

میں نماز میں کھڑا ہوں اور سوچتا ہوں، میں اپنی بہترین حالت میں ہوں۔ نماز میں ہونے سے بہتر اور کون سی حالت ہو گی بھلا۔ مجھے خیال آتا ہے، میں اس ہستی کے سامنے کھڑا ہوں، جو اس ساری کائنات کا مالک اور رازق ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ کائنات کتنی بڑی ہے، ہمارے تخیل سے بھی بڑی۔ 

میں سوچتا ہوں میں اس رب کے سامنے کھڑا ہوں، اس حی و قیوم کے سامنے کھڑا ہوں۔ اس زندگی میں اس حالت سے بہتر اور کون سی حالت ہو گی بھلا۔ 

میں سجدے سے قیام میں کھڑا ہوتا ہوں، اور قیام سے سجدے میں چلے جاتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے قیام بھی کوئی کم خوبصورت حالت نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے سجدے سے قیام میں کھڑے ہونے کا لمحہ بہت خوبصورت لمحہ ہے۔ 

مجھے لگتا ہے نماز بندے کی تمام نیکیوں کا مجموعہ ہے۔ بندے نے جو جو بھی نیک کام کیے ہوتے ہیں، وہ نماز میں شامل ہو جاتے ہیں۔ بندے کے تمام نیک کام مل کر نماز بن جاتے ہیں۔ 

میں سوچتا ہوں میں بہترین حالت میں ہوں۔ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے بھلا۔ جب بندہ اللہ سے راضی ہو جائے ، تو کیسی خواہش اور کیسی ترجیح ۔ کیسا مقام اور کیسا مرتبہ ۔ کیسی کوشش ۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نماز کی محبت عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Saturday, May 3, 2025

حسن کو کوئی بونس ملا تھا

 

حسن کو کوئی بونس ملا تھا، اور اس نے نیت کر رکھی تھی کہ بونس کے پیسوں میں سے غنیۃ الطالبین لائے گا۔ غنیۃ الطالبین حسن کے دادا جان کی فیورٹ کتاب تھی، اور وہ حضور غوث الاعظمؓ کا ذکر کرتے ہوئے، غنیۃ الطالبین کا تذکرہ ضرور کیا کرتے تھے۔ 

ہم حضور غوث الاعظمؓ کی اولاد میں سے ہیں۔ شائد ہم ان کے بارے میں اس طرح فیل نہیں کرتے جس طرح دوسرے لوگ فیل کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال ہم اردو بازار پہنچے، فرید بک سٹال پر پہنچے، اور غنیۃ الطالبین کی ڈیمانڈ کر دی۔ مجھے تو دور سے دیکھ کر ہی محسوس ہو گیا، کہ یہ ہماری کتاب ہے۔ میں نے حسن کو پہلے دیکھنے دی، اس نے ”ٹھیک ہے“ کہا، تو میں بھی دیکھنے لگا۔ ایک ہی جلد میں تھی۔ بہت اچھی جلد تھی، بلیو کلر کی۔ بڑا خوشگوار سا رنگ تھا۔ ہاتھ کی کتابت تھی۔ اردو عربی، بہت خوبصورت لکھی ہوئی تھی۔ 

میں اب ان کتابوں سے نکل چکا ہوں، لیکن میرا دل بہت کیا اسے پڑھنے کو۔ حسن کی عمر میں میں بھی بہت پڑھا کرتا تھا۔ مجھے زیادہ تر تو والد صاحبؒ کی کتابوں میں ہی مل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی میں خرید بھی لاتا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”انسان کو کسی نیک انسان کی کمپنی مل جائے، کسی بزرگ کا ساتھ مل جائے، بہت بڑی خوش قسمتی ہے اس کی“ میں نے دکان سے باہر آ کر کہا۔ ”یہ کتابیں بھی کسی بزرگ سے کم نہیں ہوتیں“ میں کہنا چاہتا تھا، لیکن مجھے یاد آیا میں نے دعا کو سو درود شریف کی کتاب گفٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 

میں نے دو تین سال پہلے دعا کو کہا تھا، کہ میں اسے عالم فقری صاحبؒ کا مرتب کردہ سو درود شریف کا مجموعہ گفٹ کروں گا۔ بہرحال، پتہ نہیں کیسے، یہ گفٹ التوا کا شکار ہوتا گیا، اور آج اچانک سے یاد آ گیا۔ خوش قسمتی سے پیسے بھی تھے۔

ہمیں آگے پیچھے ڈھونڈ کر، آخر کار شبیر برادرز کی دکان نظر آ گئی۔ وہاں سے عالم فقری صاحبؒ کے صاحبزادے کی دکان مل گئی، اور ہم سو درود شریف کا مجموعہ خرید کا شاداں و فرحان باہر نکل آئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل شائد ہمارا کتابوں کا دن تھا۔ حسن کہتا ہے، سارا نے سلویا پلاتھ کی کتاب منگوائی ہے کوئی۔ ہمیں لکیلی ریڈنگز کا سٹال نظر آ گیا۔ ہم نے سلویا پلاتھ کی کتابیں پتہ کیں، اور ”ایریل“ لے لی۔ میں نے تیس پینتیس سال پہلے سلویا پلاتھ پڑھی تھی۔ اس کی بائیوگرافی، اور دوسری کتابیں بھی پڑھی تھیں۔ اچھی لگی تھی۔ ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ۔ بعد میں اردو بازار کے دنوں میں میں نے کریٹیکل سٹڈی بھی لکھی تھی سلویا پلاتھ پر۔ مجھے یہ سب کچھ یاد کر کے بہت اچھا لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اپنے لئے شاہ حسینؒ کی کافیوں والی کتاب ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن نہ مل سکی۔ پنجابی ادبی بورڈ کی چھپی ہوئی۔ میں اونلائن پڑھ لیتا ہوں، لیکن میرا دل کرتا ہے، پیپر فارم میں بھی ہو میرے پاس۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر ہم اردو بازار سے انارکلی اور انارکلی سے نیلا گنبد نکل آئے۔ حسن نے ٹراؤزر ٹی شرٹ بھی لینی تھی۔ اور میرا خیال تھا مجھے ریڑھی سے سفید شرٹ مل جائے تو اچھا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپسی پر مال سے گزرتے ہوئے، میں اور حسن ایک طویل ڈسکشن میں چلے گئے۔ مزارات پر حاضری ہمارا موضوع تھا۔ 

”ہم کیسے کہہ دیں، کوئی انسان جو زندگی بھر عبادت کرتا رہا، قرآن پڑھتا رہا، نماز پڑھتا رہا، نیک اعمال کرتا رہا، ہم کیسے کہہ دیں، کہ ان سب کا اس کے ایموشنل سسٹم پر، اس کے جذبات اور خیالات پر اثر نہیں ہوا ہو گا۔ ہم کیسے کہہ دیں، کہ مرنے کے بعد اس زمین پر اثر نہیں ہوا ہو گا، جہاں وہ دفن ہے۔ 

”بات یہ ہے کہ حضور ﷺ  کی آل اطہار کا وجود کس لئے تھا، کس لئے ہے۔ اگر اس وقت نہیں پتہ لگتا تھا، تو آج تو پتہ لگ سکتا ہے۔ یہ غوث اعظمؓ، یہ داتا صاحبؒ، یہ بی بی پاکدامنؒ، یہ حضور ﷺ  کی آل پاک کے مزارات ہی تو ہیں۔ دنیا کے نوے فیصد سے زیادہ مزارات تو حضور ﷺ  کی آل پاک کے ہیں۔ حضور ﷺ  کی نسل پاک کے ہیں۔ اور دس فیصد شائد ان سے محبت رکھنے والوں کے۔ ان کو ماننے والوں، ان کے مریدوں کے۔ 

”یار ہم مزارات کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی خلاف شرع کام ہوتے ہیں، تو انہیں پوائنٹ آؤٹ کیا جائے، لوگوں کو تعلیم دی جائے۔ یہ کہنا کہ وہاں جانے ہی نہیں چاہئے، ان کی کتابیں ہی نہیں پڑھنی چاہئیں، اور انتہائی صورت میں ان بزرگوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگنا، مجھے یہ رویے سمجھ نہیں آتے۔ 

”عجیب و غریب رویے ہیں حضور ﷺ  کی آل کی طرف۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم باتیں کرتے کرتے، ڈیوس روڈ سے بوڑھ والے چوک کی طرف آ گئے۔ میں نے ریڑھی سے سفید شرٹ لینی تھی۔ راستے میں ہمیں بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف جاتی سڑک بہت اٹریکٹو محسوس ہوئی۔ 

”بھائی ابھی شرٹ لے کر آتے ہیں ادھر۔ یار کیسی پررونق سڑک ہے“۔

ہم پررونق اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں ہمیں روحانیت اور پاکیزگی محسوس ہو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپسی پر ہم بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی طرف مڑ گئے۔ واقعی کمال سڑک تھی۔ ایسے لگ رہا تھا، جیسے کسی اور ہی دنیا سے گزر رہے ہوں۔ بہت ہی خوبصورت فضا تھی۔ بہت ہی خوبصورت۔ دل خوش ہو گیا۔ داتا صاحبؒ کے عرس پر ایسی ہی فضا محسوس ہوتی ہے مجھے۔ اور حج کے دوران سارے مدینہ پاک کی فضا اس فضا سے کئی گنا زیادہ، لیکن ایسی ہی محسوس ہوتی تھی۔ وہی نور ہے دنیا بھر کے مزارات سے پھوٹتا ہوا۔ اسی سرچشمے کی چھوٹی چھوٹی ندیاں۔ 

”یار کسی دن سپیشل آتے اس جگہ۔ یار کمال ہی ہو گیا ہے۔ کیسی فیلنگز ہیں۔ بھائی کوئی پروگرام بناؤ یار ادھر آنے کا۔ کوئی کتاب لینے، کسی اور بہانے۔ یار وہ آپ نے صحیفہ سجادیہ لینا تھا ایک بار۔ بھائی یہاں سے مل جائے گی وہ کتاب۔ کسی دن لینے آتے ہیں۔ اندر مزار پر حاضری بھی دے لیں گے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے خالی ہاتھ آنا مناسب نہ سمجھا اور سو روپے کی شیرینی لے لی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بھائی زندگی گزر گئی ہے مختلف تجربات میں۔ ایک بات بتاتا ہوں آپ کو آج۔ یہ جو اپوزٹ سیکس کی محبت ہے نا، اس کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے۔ تلاوت اور نماز میں کچھ فیلنگز مل جاتی ہیں۔ لیکن بھائی سیکس کا کوئی آلٹرنیٹو، کوئی بدل نہیں۔ اور سیکس عقل سے عاری ہوتا ہے۔ وہ کسی مذہب، نسل، عمر، ایجوکیشن کو نہیں مانتا۔ بلکہ وہ کچھ مانتا ہی نہیں ہے۔ سیکس کو اگر کوئی چیز کنٹرول کر سکتی ہے، تو وہ کسی اللہ والے، کسی مرد صالح، کسی بزرگ کی صحبت ہے۔ اور اگر وہ میسر نہ آئے تو کسی مزار کی حاضری۔ 

”بھائی اس کے علاوہ مجھے اور کوئی سولوشن نظر نہیں آیا اس پرورشن کا۔ نماز روزہ ٹھیک ہیں، لیکن بگڑے ہوئے کیسز میں، مرد صالح کی صحبت ہی اصل علاج ہے۔ بعض دفعہ بندہ اتنا بگڑ چکا ہوتا ہے، سیکشؤلی اتنا گمراہ ہو چکا ہوتا ہے، اتنا وے وارڈ، اتنا پرورٹڈ، کہ مرد صالح کی صحبت بھی کچھ نہیں کرتی۔ مزار پر حاضری بھی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا بہت رئیر ہے۔ لاکھوں کروڑوں میں کوئی ایک کیس ایسا ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بہت بول چکا تھا، لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا، جیسے اس موضوع پر جتنا بولنا چاہئے، میں نے اتنا نہیں بولا ابھی۔ بہرحال ہمارا گھر قریب تھا، اور ہم اپنی گفتگو سمیٹ کر، گھریلو موضوعات پر واپس آنے لگے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم کی پہچان اور آگاہی نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

   


جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے تعلق


 جو کام بھی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے خالی ہوں گے، وہ کیونکر اچھے ہو سکتے ہیں۔ 

بندے کا مقصد ہے، بندے کی کوشش ہے، اس کے ارادے ہیں، پلاننگز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو شامل کیے بغیر، شامل رکھے بغیر، کس طرح بارآور ثابت ہو سکتی ہیں یہ چیزیں۔ 

بندے کے اندر غیرت ہے، انا ہے، عزت نفس ہے، خود داری ہے، مروت ہے۔ ان سب احساسات اور جذبات میں اگر اللہ کا ذکر شامل ہو، اس کا تعلق شامل ہو تو کمال ہی ہو جاتا ہے۔ بندے کی غیرت، انا، عزت نفس، خودداری، مروت وغیرہ دین سے جڑ جائیں، اللہ تعالیٰ کے تعلق سے جڑ جائیں تو اور کیا چاہئے۔ بس زندگی کامیاب ہو گئی۔ 

لیکن اگر یہ سب اللہ تعالیٰ سے خالی ہوں، تو پھر مصیبت ہی مصیبت ہیں۔  اگر یہ سب کچھ لوگوں سے، اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے جڑ جائے، تو بندہ تصور کر سکتا ہے، یہ زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہو گی۔ 

بندہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا، دور سے دور ہوتا جائے گا۔ 

اگر آپ  دیکھیں تو دنیا میں پھنسا ہوا ہر انسان بنیادی طور پر ایسے ہی کسی احساس یا جذبے میں پھنسا ہوتا ہے۔ غیرت، انا، عزت نفس، خودداری، مروت، یہ ختم کر دیتی ہیں اللہ تعالیٰ سے تعلق کو، اگر یہ انسانوں سے وابستہ ہو جائیں۔ آپ انہیں بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے جڑ جائے، اس کے دین سے جڑ جائے، تو زندگی کی خوبصورتی اس سے زیادہ ہو نہیں سکتی کوئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر ہر لمحہ اپنی ذات سے وابستگی نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ