فرض کریں مجھے کسی نے کہا، فلاں شخص کے پاس جاؤ، بہت بڑا آدمی ہے، بہت بڑا بزنسمین ہے، تمہارا کام ایک چٹکی میں ہو جائے گا۔
وہ مجھے اس کا ایڈریس اور نمبر دیتا ہے۔ میں اس نمبر پر کال کر کے ٹائم لے لیتا ہوں۔ میں وقت پر پہنچ بھی جاتا ہوں۔
جانے سے پہلے اس بات کے پورے چانسز تھے، کہ میری ملاقات کینسل ہو جائے۔ مجھے فون آئے، کہ آپ کی ملاقات کا ٹائم اپروو نہیں ہو سکا۔ جانے سے پہلے اس بات کے پورے امکانات تھے، کہ میں بہترین کپڑے پہنوں، بہترین خوشبوئیں لگاؤں، اور خوب بن ٹھن کر ملاقات کے لئے جاؤں۔ جانے سے پہلے میں اس بڑی شخصیت کے بارے میں بھی جتنا کچھ ہو سکتا معلوم کر لیتا۔ وہ کیا پسند کرتا ہے، اسے کس قسم کی باتیں اچھی لگتی ہیں، کس قسم کا گیٹ اپ اچھا لگتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اور میں نے اہتمام کیا بھی۔ میں نے جتنی بھی میری استطاعت تھی، اس بات کا اہتمام کیا، کہ وہ شخصیت مجھے پسند کرے، اور مجھے نوکری دے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جب میں ملاقات کے لئے اس عظیم شخصیت کے سامنے بیٹھا ہوں۔ تو یہ سوچنا کتنا احمقانہ محسوس ہوتا ہے، کہ میری ملاقات پتہ نہیں اپروو ہو یا نہ ہو، پتہ نہیں مجھے ملنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ اب تو میں سامنے بیٹھا ہوں۔ اب تو بات کرنے کا وقت ہے۔ ملاقات تو اپروو ہو چکی، وقت بھی مل چکا۔ اب اس پر کیا غور کرنا۔
میں کیسے کپڑے پہنتا، کیسا تیار ہوتا، وہ وقت بھی گزر چکا ہے۔ اب تو میں سامنے بیٹھا ہوں۔ اب تو میرا درخواست کرنے کا وقت ہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے کا وقت ہے۔ اب تو یہ کہنے کا وقت ہے، کہ میں کیوں آیا ہوں، اور کیا چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نماز ایسا ہی ایک خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہو چکے ہیں، تو قبول ہونے، یا نہ ہونے کی فکر چھوڑ دیں۔ یہ فکر تو نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے کرنے والی تھی۔ آپ کا اہتمام کیسا ہے، یہ سب بھی پہلے سوچنے کی بات تھی۔ اب تو آپ کھڑے ہو چکے ہیں۔ اب تو آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ چکے ہیں۔ اس نے آپ کا اہتمام بھی قبول کر لیا ہے، اور آپ کی ملاقات بھی قبول کر لی ہے۔ اب تو اگلی بات کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو عبادات کی روح محسوس کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment