Monday, August 4, 2025

پچھلے دنوں غیبت پر پوسٹ کی تھی

 

پچھلے دنوں غیبت پر پوسٹ کی تھی، تو خیال آیا، کتنا آسان سا کام ہے، پانچ سات بری عادتیں ہیں، اگر بندہ فوکس کر کے، محض اپنے آپ کو بہتر بنانے کے خیال سے، انہیں چھوڑنے یا ان سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگے، تو ہو سکتا ہے، کچھ دنوں میں یا، کچھ ہفتوں میں، یا کچھ مہینوں میں ان پر قابو پا ہی لے۔ 

میں نے سوچا میں بھی اگر ایک ترتیب سے ان پر لکھنا شروع کروں، تو شائد خود بھی کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

میں نے غیبت پر قابو پانے کے طریقوں پر غور کیا، تو کچھ طریقے بڑے آسان لگے۔ کسی نہ کسی حد تک میں اور آپ سب ان پر عمل بھی کرتے آئے ہیں۔ کچھ کونشئس ہو کر عمل کریں گے تو شائد اور بہتر ہو جائے۔ 

میری تو شامت یہ ہے کہ میں، اللہ معاف کرے، اکثر دوسروں کے غیبت شروع کرنے کا شکار ہوتا ہوں۔ وہ بندہ بعض دفعہ بہت قریبی رشتہ دار ہوتا ہے، بہت ہی قریبی دوست ہوتا ہے، یا کوئی امیجئیٹ باس ہوتا ہے۔ میں مروت میں مارا جاتا ہوں۔ بات ختم ہوتے ہوتے، بات ٹالتے ٹالتے، کچھ نہ کچھ ”ہاں، ہوں“ ہو ہی جاتی ہے۔ میں شائد کبھی ان کاموں سے باز آنے کی نہ سوچتا، میرا مسئلہ ہے کہ میرا دل برا ہونے لگتا ہے۔ میں کسی کو فحش گوئی کرتے سنوں، غیبت کرتے سنوں، نفرت، حسد، انتقام کی باتیں سنوں، کچھ دیر بعد مجھے متلی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ میرا دل بوجھل ہونے لگتا ہے۔ میں وقت پر قابو نہ پاؤں تو مجھے غصہ آنے لگتا ہے۔ غصہ ایسی حرام چیز ہے، کہ اگر یہ پیدا ہو جائے، یا کوئی دوسرا آپ میں بھر دے، تو کسی نہ کسی پر نکالنا ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے لگتا ہے جیسے گلے میں پھنس گیا ہے۔ بس تھوکنا ہی تھوکنا ہے۔ اللہ معاف کرے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال، ان سب عادتوں کے ٹریگرز ہوتے ہیں۔ کوئی خاص لوگ، کوئی خاص سچوایشنز، کوئی خاص مقاصد جن میں یہ جذبات پیدا ہوتے یا بنتے ہیں۔

میرے لئے غیبت کی سب سے بری حالت یہ ہوتی ہے، کہ میں کسی سینئر یا باس کے پاس بیٹھا ہوں، اور اس نے کسی جونئیر یا کسی بڑے باس کی چغلی شروع کر دی ہے۔ اب میں نرم زبانی اور شائستگی سے بچنے کی کوشش شروع کر دوں گا، کبھی موضوع بدلوں گا، کبھی خواہمخواہ مسکراؤں گا، کبھی ادھر ادھر دیکھنے لگوں گا، کہ شائد کسی طرح وہ کوئی اور بات شروع کر دے۔ کبھی صاف صاف کہہ بھی دوں گا، کہ چلیں چھوڑیں کوئی اور بات کرتے ہیں، ویسے وہ انسان اچھا ہے۔ اس کی کوئی خوبی بتانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن اکثر سب بے سود۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بڑی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ میرے ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ سینئرز یا باس کے پاس بیٹھنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کسی سے کوئی خاص قربت بھی نہیں ہو پاتی۔ 

بہرحال مجھے لگتا ہے بندہ کوشش کرے تو کچھ بہتر ہو بھی جاتا ہے۔ 

ویسے میں سینسٹو آدمی ہوں، مجھے پتہ لگ جاتا ہے، کہ ایسی نیگیٹو باتوں کے مجھ پر کیا اثرات ہو رہے ہیں، ہو سکتا ہے کچھ کو پتہ نہ لگتا ہو، لیکن اثرات سب پر ہوتے ہیں۔ میں مان ہی نہیں سکتا  کہ کوئی بندہ غیبت کرتا ہو اور حرام نہ کھاتا ہو۔ کسی نہ کسی شکل میں وہ کچھ دوسرے قبیح گناہوں میں شامل ضرور ہو گا۔ اس کا نماز روزے سے یقین اٹھ چکا ہو گا۔ اس کا اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا تصور ختم ہو چکا ہو گا۔ اس کو عبادات میں لطف محسوس ہونا بند ہو چکا ہو گا۔ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو رہا ہو گا، یا ہو چکا ہو گا، جو اس کے روحانی طور پر مر چکنے کی دلیل ہو گا۔ اللہ معاف کرے۔ سب مسلمان بھائی ہیں۔ کسی غیر مسلم کے لئے بھی بندہ ایسا نہ سوچے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے بندہ ”استغفراللہ“ کہہ دے۔ منہ پر کہہ دے، کہ نہ کریں اس کی برائی، وہ فوت ہو چکا ہے، یا یہاں موجود نہیں ہے۔ موجود ہو بھی تو نہیں کرنی چاہئے۔ کسی کو برا ثابت کر کے کیا کرنا۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ 

اگر ہو سکے تو خاموش ہی رہیں۔ بولیں ہی نہیں۔ 

اگر بولیں بھی تو اس کی کوئی اچھائی بیان کرنے لگیں۔ دعائے مغفرت کرنے لگیں۔ 

ایک بہت بڑی بات میں نے نوٹ کی ہے۔ اگر بندہ غیبت میں شریک نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی نظروں میں اس کا مقام اور اس کی عزت بلند فرماتا ہے۔ وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے، اس کا احترام کرنے لگتے ہیں۔ 

اور غیبت کرنے والا بھلے ہی کسی اچھی پوسٹ پر بیٹھا ہو، لوگوں کے دلوں میں اس کا مقام ختم ہو جاتا ہے۔ وہ دلوں سے اتر جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاکھ ناممکن نظر آتا ہو، اپنے گھروں میں ان عادتوں سے بچنے کی کوشش شروع کر دینی چاہئے۔ ان کی قباحتوں سے اپنے بچوں کو بچانا چاہئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو خوشیوں اور خوبصورتیوں کے راستے پر چلنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


Friday, August 1, 2025

میں غیبت سے ڈرا ہوا انسان ہوں

 

میں غیبت سے ڈرا ہوا انسان ہوں۔ مجھے بہت خوف آتا ہے غیبت سے۔ کرنے سے بھی اور سننے سے بھی۔ مجھے وومٹنگ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کراہت کا احساس ہوتا ہے۔ مردہ بھائی کا گوشت کھانے والی بات میرے ذہن میں پھنس جاتی ہے۔ لیکن میں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کوئی منع نہیں کیا تھا خاص۔ بس یہ کہا کرتا تھا، کہ میرے سامنے نہ کریں، مجھے وومٹنگ محسوس ہوتی ہے۔ 

آج میرے بچے کسی رشتے دار کی برائی کر رہے تھے، اور میں سوچ رہا تھا، کہ اتنی بڑی مصیبت کا مجھے احساس ہی نہ ہوا، کہ میرے گھر میں پنپ رہی ہے۔ 

”بس یار پیچھے جو ہوا سو ہوا۔ آئندہ کوئی کسی کے بارے میں یہ نیگیٹو رویہ نہیں رکھے گا۔ کسی کی کوئی بیک بائٹنگ نہیں ہو گی۔ میرے خیال میں آپ مجھے منع کرنے کی سٹیج تک نہیں لے کر جائیں گے“۔

قرآن پاک میں جہنم کے کنارے پہنچنے کا ذکر ہے۔ مجھے لگا اگر جہنم کے کنارے کوئی چیز لے کر جاتی ہے تو وہ غیبت ہے۔ دنیا کی زندگی بھی قابل رحم ہو جاتی ہے۔ 

اللہ بچائے اس آفت سے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کے ذہن میں بچوں کی پرورش کے بہت سے منصوبے ہوں گے۔ میری گزارش ہے، کہ بس غیبت سے روک دیں۔ سختی سے روک دیں۔ خود بھی گریز کریں، اور بچوں کو بھی دور لے جائیں۔ غیبت کی ہر طرح کی شکل سے۔ بس یوں لگے گا آپ کو دنیا میں ہی جنت نصیب ہو گئی ہے۔ غیبت میں پڑا ہوا انسان اس دنیا میں ہی جہنم کا مزہ چکھ رہا ہے۔ اللہ معاف کرے۔ 

میں نے کبھی اتنی کھلی نصیحت نہیں کی ہو گی، لیکن میرا دل کر رہا ہے کہ میں خود بھی بھاگ جاؤں، اور دوسروں کو بھی نکال لے جاؤں۔ مجھے غیبت کی قباحتوں، بدصورتیوں، بدبوؤں کا کچھ اس طرح سے احساس ہوا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح غیبت سے محفوظ فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


میری اپنے مدرسے کے طالبعلموں سے

 

میری اپنے مدرسے کے طالبعلموں سے اکثر یہی بات ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”انس آپ ایک چیز سیکھ لیں گے کسی دن، اور بہت اچھے قاری بن جائیں گے۔ بس آپ کو معلوم ہو جائے گا، کہ قرآن پاک پڑھتے ہوئے جلدی نہیں کرنی“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”خضر میری عمر میں پہنچ کر آپ کو ایک چیز معلوم ہو گی، کہ آپ میں اور اللہ کے بہت ہی نیک بندے میں بس ایک فرق ہے، کہ وہ قرآن پاک اور نماز پڑھتے ہوئے جلدی میں نہیں ہوتا“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”حرم آرام آرام سے پڑھیں میرے بچے۔ تجوید آرام آرام سے پڑھنے کا نام ہے۔ تجوید کا مطلب ہے خوبصورت انداز میں پڑھنا۔ اور قرآن پاک کی خوبصورتی اسی میں ہے، کہ اسے آرام آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بچو آپ نے دیکھا ہے کہ پچھلے ایک مہینے میں میں نے آپ سب کو جس چیز کا سب سے زیادہ کہا ہے، وہ ایک ہی ہے“۔
بچے بولے ”آپ نے کہا ہے، کہ آرام آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں“۔
”جی میں نے سب سے زیادہ اسی بات پر زور دیا ہے“۔ میں مسکرایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بچو آپ جب میری عمر میں پہنچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا، کہ جس جس نے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا نہ سیکھا، وہ پڑھنا ہی چھوڑ گیا۔ قرآن پاک اور نماز ساری زندگی بس وہی پڑھتے ہیں، جو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا سیکھ لیتے ہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نماز اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ