یہ مجموعی طور پر ایک منفی رویہ ہوتا ہے، جو ہمیں اپنے آپ کو دل ہی دل میں غلط، بزدل، بے ضمیر، بے وقوف وغیرہ سمجھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
پھر کبھی دریائے سوات میں پیش آنے والے حادثے جیسا کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے، کہ ہماری منفی ذہنیت اور بے جا تنقید ہمیں کس قدر کھوکھلا کر چکی ہوئی ہے۔
پندرہ اٹھارہ بندے دریا میں پھنسے ہوئے ہیں، اور ان سے بھی زیادہ کنارے پر موجود ہیں، لیکن کسی میں کوئی ترکیب، کوئی حل ڈھونڈنے کی عقل نہیں آتی۔
انہی لوگوں نے اگر اپنی تعریف سنی ہوتی، اپنے آپ کو بہادر، باضمیر، ذمہ دار اور عقلمند سنا ہوتا، اپنے ملک اور لوگوں کے بارے میں اعتماد سیکھا ہوتا، تو شائد انہیں اس مشکل سے نکلنے کا کوئی طریقہ، یا ترکیب سوجھ جاتی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بہت ہوتا ہے دریا کا پاٹ عبور کرنے کے لئے۔ اگر رسی موجود نہیں تھی تو رسی بنائی بھی جا سکتی تھی۔ جو لوگ دیکھتے رہے، ان میں سے کوئی تیراک بھی ہوں گے۔
بات صرف اتنی ہے، کہ اگر ان لوگوں کی پرورش مثبت ذہنیت سے کی ہوتی، انہیں مسائل سے لڑنا سکھایا ہوتا، مسائل کا حل ڈھونڈنے کی تربیت دی ہوتی، تو یہ سب ہیرو ہوتے۔ یہ سب کوئی ترکیب ڈھونڈ نکالتے۔ یوں بے بسی سے دیکھتے نہ رہتے ایک دوسرے کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ملک، اپنے لوگوں، اپنے اداروں پر بے جا تنقید سے باز فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
No comments:
Post a Comment