Wednesday, April 30, 2025

قرآن پاک میں ہمارے کچھ رویوں کا

 

قرآن پاک میں ہمارے کچھ رویوں کا ذکر ہے، کہ اگر ہم وہ رویے اپنائیں گے، تو اللہ تعالیٰ بھی ہماری طرف اسی رویے سے توجہ فرمائے گا۔

اگر ہم اسے یاد رکھیں گے تو وہ بھی ہمیں یاد رکھے گا۔ 

اگر کوئی اس سے مکر کرے گا، تو وہ بھی اس سے مکر کرے گا۔

اگر کوئی اس کا استہزاء اڑائے گا، تو وہ بھی اس کا استہزاء  اڑائے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں صرف یہ پوائنٹ آؤٹ کر رہا ہوں، کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، لمحہ بہ لمحہ ساتھ ہے۔ لیکن اس نے اپنا قرب ہمارے رویوں میں چھپا دیا ہے۔ ہم جیسا رویہ اس کی طرف اپنائیں گے، وہ ویسا ہی رویہ بن کر ملے گا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس سے محبت کریں، اور وہ بھی ہم سے محبت کرے۔ 

ہم اس کا دید لحاظ کریں، اور وہ بھی ہمارا دید لحاظ کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دنیا کی ہر چیز آپ سے توجہ مانگتی ہے۔ اور کیسی خوبصورت بات ہے، کہ وہ ہمارا خالق و مالک ہو کر بھی ہم سے توجہ ہی چاہتا ہے۔ سب کچھ اسی کا پیدا کردہ ہے، لیکن اس نے توجہ پیدا کر کے ہمیں توجہ کا مالک بنا دیا ہے۔ وہ کہتا ہے، مجھے توجہ دو۔ جیسی توجہ دو گے میں اس سے بہتر توجہ دوں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اچھے رویے نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Tuesday, April 29, 2025

مجھے نہیں پتہ وہ کون سا دور ہو گا

 

مجھے نہیں پتہ وہ کون سا دور ہو گا، جب دنیا میں مرد اور عورت کی محبت ختم ہو جائے گی۔ دنیا کی ہر لینگوئج، ہر کلچر، ہر قوم میں کچھ لوگ محبت کرنے والے ہوئے ہیں۔ لیلیٰ مجنوں کی طرح کے۔ یہ ختم نہیں ہو سکتے۔ جتنی مرضی فلمیں آ جائیں، ڈوائسز آ جائیں، ایڈوانسمنٹس ہو جائیں۔ میں نہیں سمجھتا کبھی کوئی ایسا وقت بھی آئے گا، جب کوئی مرد، کوئی عورت محبت نہیں کریں گے۔ جب انسان کے دل سے محبت کی پہچان ختم ہو جائے گی۔ جب انسان دوسرے انسان کی محبت نہیں چاہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے بھی اسی طرح ہیں۔  جب تک اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو ماننے والے موجود ہیں، اس سے محبت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ یہ مزار اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کے مزار ہیں۔ مزار ختم کر دیں، لوگوں کو روک دیں، لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ان جگہوں پر پہنچ جائیں گے۔ ان جگہوں کی خوشبو انہیں کھینچ ہی لائے گی۔ مجھے نہیں پتہ لوگ کیوں جاتے ہیں، میں تو کسی مزار پر جاتا ہوں، تو محبت محسوس کرنے جاتا ہوں۔ 

جس طرح ایک دوسرے سے محبت کرنے والے مرد عورت، دوسرے عاشقوں کے قصے پڑھ کر تازگی اور توانائی محسوس کرتے ہیں، اپنی محبت کو بڑھتا محسوس کرتے ہیں، اسی طرح میرے جیسے ان مزاروں پر جا کر، اللہ تعالیٰ سے محبت کی پہچان محسوس کرتے ہیں، پختگی اور بقا محسوس کرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر ایک اور بات ہے، کہ زیادہ تر مزارات میرے ہی خاندان کے ہیں، میرے ہی بزرگوں کے ہیں۔ میرے باپ دادا، میرے بڑے۔ یا ان کے ماننے والے۔ زیادہ تر مزارات حضور ﷺ  کی آل پاک کے ہی ہیں۔ سیدوں کے ہی ہیں۔ ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کے ہی ہیں۔ 

شائد دوسرے اس چیز کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو مزارات پر حاضری کی سمجھ اور تمییز عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

Monday, April 28, 2025

جب بندہ فیصلہ کر لے

 

جب بندہ فیصلہ کر لے، کہ آخرت ہی اصل ٹھکانہ ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب ہی اصل مقصد ہے، تو دنیا اور دنیا کی ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کا ہونا تکلیف دہ، اور نہ ہونا خوشی کا باعث بن جاتا ہے۔ 

بندہ دوسروں سے صلے کی توقع نہیں کرتا۔ ان کے رویوں سے نالاں نہیں رہتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ کسی کی ذرہ برابر توجہ کے لئے مرا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں کی نفرت، حسد، انتقام کے حوالے کر دیتا ہے، کہ شائد ان سے لڑ کر، انہیں نیچا دکھا کر، وہ اپنے پیارے سے توجہ حاصل کر لے۔ شائد اسے اپنے پیارے سے محبت کے دو بول سننے کو مل جائیں۔ بندہ دن رات محنت کرتا ہے، اپنے اس پیارے انسان کو ہر طرح سے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے، کہ شائد وہ اسے تھوڑی سی توجہ دے دے۔ شائد وہ اسے تھوڑی سی محبت دے دے۔ لیکن اسے کچھ نہیں ملتا۔

اگر بندہ سوچے کہ جتنی توجہ میں اس انسان کی چاہتا ہوں، اگر اتنی توجہ میں اللہ تعالیٰ کی چاہنے لگوں، اگر اتنا میں اللہ تعالیٰ کی توجہ کا طالب ہو جاؤں، تو کیا وہ مجھے توجہ نہیں دے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ کہتا ہے، میں نے فلاں کے لئے اتنا کچھ کیا، اتنی محنت کی، اتنی تکلیفیں اٹھائیں، لیکن اس نے بدلے میں کچھ نہ دیا۔ کوئی محبت، کوئی شکریہ، کوئی توجہ نہیں دی۔ بندہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے، جلتا رہتا ہے۔ 

لیکن اگر وہ اپنا منہ اللہ تعالیٰ کی طرف کر لے، اور اسی کا ہو جائے، اور سوچے کہ میں اتنی محنت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتا تو کیا تھا۔ کیا اللہ تعالیٰ مجھے اسی طرح محروم رکھتا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا کا ہر انسان کسی ایسے کام میں پھنسا ہوا ہے، جو اسے کچھ نہیں دے رہا، جو اس سے سب کچھ چھین رہا ہے، لیکن نہیں دے رہا۔ اگر انسان سوچے، کہ اس کام میں اتنی ذلت اور خواری کی بجائے، میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں، اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتا، تو کیا مجھے یہ سب نہ ملتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نائنٹی سیون کی بات ہے، میں نے کاؤنٹ کیا میں انگریزی لٹریچر کے کوئی ڈیڑھ دو لاکھ سے زیادہ صفحے پڑھ چکا ہوں۔ مجھے خیال آیا، اگر میں نے اتنا قرآن پاک پڑھا ہوتا تو کیا مجھے اتنی بھی عقل نہ آتی، جتنی انگریزی کے ڈیڑھ دو لاکھ صفحے پڑھ کر آئی ہے۔ 

بس اس دن کے بعد سے میرا دل انگریزی سے اچاٹ ہونے لگا، اور میں قرآن پاک پڑھنے، عربی سیکھنے اور حفظ کرنے کی طرف لگ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا کی محرومیاں اور تکلیفیں، نعمتیں اور خوشیاں بن جاتی ہیں، اگر بندہ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر لے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ ہونے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Saturday, April 26, 2025

سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے

 

سولہ سترہ سال کی عمر بڑی اہم ہوتی ہے۔ بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مارتی ہے، اور وہ اسے ڈھونڈنے، پانے، اور اس کے قریب کی ہونے کی خواہشات محسوس کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ کون ہے، کیسا ہے، کہاں رہتا ہے، کیا وہ دعا سنتا ہے، کیا وہ کچھ مانگنے پر عطا کرتا ہے، کیا وہ ساتھ ساتھ رہتا ہے، کیا وہ مدد کے لئے آتا ہے، ایسے اور اس قسم کے اور بہت سے سوالات سر اٹھاتے ہیں، اور بندہ انہیں آزما کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

بعض دفعہ اسی عمر میں مجازی محبت کا غلبہ محسوس ہوتا ہے، اور بندہ اس سب کچھ کو بھول کر کسی اپنے جیسے انسان کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ پھر اس طرح ہوتا ہے، کہ دونوں محبوب ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں، اور بندے کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مجازی محبوب کو خدا جیسا، اور خدا کو مجازی محبوب جیسا سمجھنا شروع کر چکا ہے۔ 

بعض دفعہ اس کشمکش میں بندہ مجازی محبت سے نکل آتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ 

یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بندے کو یہ بات سمجھنے میں ایک مدت لگ جاتی ہے، کہ تلاش کی خواہش، اسے پانے کا تصور بہت بڑی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ 

بعض دفعہ بندہ بہت جلد سمجھ جاتا ہے، کہ دراصل اسے قرب کی خواہش ہے، دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی دوری اور نزدیکی کے تصور میں مبتلا ہے۔ 

بعض دفعہ بندہ اس حالت میں نمازوں اور تلاوتوں کی طرف راغب ہوتا ہے، اور اسے محسوس ہوتا ہے، کہ اسے اپنا مقصود مل گیا ہے۔ 

بعض دفعہ بندے پر مجازی محبت کا غلبہ کچھ زیادہ ہو جاتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو نمازوں اور تلاوتوں کی بجائے، دنیا کے مختلف نیک کاموں میں تلاش کرنے لگتا ہے۔

بہرحال نمازوں اور تلاوتوں کے مقصود تک پہنچنے والا ایک بہت بڑی آزمائش میں گھر جاتا ہے۔ وہ اپنی آج کی حالت کا اپنے گزرے ہوئے کل کی حالت سے موازنہ کرنے لگتا ہے، اور آنے والے کل میں کسی بے مثال کامیابی کی امید لگا لیتا ہے۔ وہ آنے والے کل میں کسی ایسی حالت کا تصور کرنے لگتا ہے، جسے نہ آج تک اس نے پایا، نہ محسوس کیا۔ 

اپنی حالتوں کے موازنے سے نکل کر، وہ بعض دفعہ کسی گزرے ہوئے، یا ہم عصر بندے کے موازنے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے ماضی میں اللہ تعالیٰ کے بندے کتنی کتنی جدوجہد کر چکے ہیں، کتنا کتنا نام کما چکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی نعمتوں سے نواز ہوا ہے انہیں، وہ خود بھلا کیا ہے۔ ماضی کے بزرگ کتنے نیک تھے، اور وہ خود کتنا گنہگار ہے۔ بس یہ موازنے اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ وہ ماضی کے بزرگوں کی نقل کرنے نکلتا ہے، لیکن ناکام ہوتا ہے۔ وہ اپنے مزاج اور اپنی ہمت سے بڑا بوجھ اٹھا لیتا ہے، اور گر پڑتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔ نہ اسے ماضی کے بزرگوں جیسے خواب آتے ہیں، نہ ان جیسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کتنے قریب تھے، ان کی کتنی دعائیں قبول ہوتی تھیں، ان کی باتیں کتنی معرفت آموز ہوتی تھیں، وہ تو ویسے مقامات سے محروم ہے۔ 

بس پھر موازنے اور مقابلے اسے لے اڑتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھول جائے، گر جائے، کھو جائے، اللہ تعالیٰ اسے علم عطا کرتا ہے، اور بندہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ اسے پتہ لگ جاتا ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیسی پہچان رکھتا ہے۔ بس اسے اپنے دل، اپنے اعمال، اور تعلق کی سمجھ آ جاتی ہے۔ اسے اپنے حصے پر قناعت نصیب ہو جاتی ہے۔ 

وہ اپنے آپ کو صراط مستقیم یعنی استقامت والے راستے پر محسوس کرتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم پر چلنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


Tuesday, April 22, 2025

کچھ لوگ اس لئے نماز اور تلاوت کے قریب

کچھ لوگ اس لئے نماز اور تلاوت کے قریب نہیں جاتے، کہ ان کے خیال میں وہ بہت گنہگار ہیں، اور یہ کام تو نیک لوگوں کے ہیں۔ 

کچھ لوگ اللہ تعالیٰ سے خوف کھا کر بھی اس کے سامنے جانے سے کتراتے ہیں۔

کچھ لوگ دعاؤں اور عبادتوں کے قبول نہ ہونے کے مسائل، غسل اور وضو نہ ہونے کے مسائل، اور نماز نہ ہونے کے مسائل میں اتنا الجھ جاتے ہیں، کہ ان کا دل ہی نہیں کرتا ان سب کے قریب جانے کو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی تعلق کی ایک قسم ہے۔ ان کا تعلق کچھ اسی طرح کا بن جاتا ہے اللہ تعالیٰ سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری نمازوں اور تلاوتوں کی خوشی اور خوبصورتی کے راستے میں وہ مسائل بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے، جو میں نے نمازوں، تلاوتوں، غسل، وضو، دعاؤں کے قبول نہ ہونے کے بارے میں پڑھے ہوئے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس آپ کو وضو اور غسل کے مسائل سکھائے ہوں کسی نے، اور آپ کو پاکی کا بنیادی تصور معلوم ہو۔ 

نماز آتی ہو۔ 

اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا تصور واضح ہو، کہ وہ حی و قیوم ہے، اور دیکھی اور اندیکھی ہر چیز اسی نے تخلیق کی ہے۔ وہ خیالات، احساسات اور تصورات کا بھی خالق ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے، سمیع و بصیر ہے۔ وہ احد و صمد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے نماز اور تلاوت سے خوشی حاصل کرنی ہو، تو کم سے کم معلومات ہوں ان دو کے بارے میں۔ اتنی ہی جتنی کبھی بچپن میں سیکھی سنی تھیں۔

کن باتوں سے غسل نہیں ہوتا، وضو نہیں ہوتا، نماز نہیں ہوتی، تلاوت نہیں ہوتی، عبادات قبول نہیں ہوتیں، ان مسائل کی تفصیل سے بچیں۔ ان کی تفصیل دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، منفی اور تنقیدی رویے پیدا کرتی ہے، اور دماغ اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنے لگتے ہیں۔  

اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں جتنا غور و فکر کر سکتے ہیں کریں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں دل کو اچھا لگے وہاں نماز ادا کریں۔ 

جو جگہ بھی خوبصورت محسوس ہو وہاں نماز ادا کریں۔

نماز آپ کے اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نام ہے، اس کو آسان سے آسان بنائیں، محبت بھرا بنائیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی محبت سے معطر و منور بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ 


 

Monday, April 21, 2025

میں عشا کی نماز پڑھ رہا تھا

 

میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا، اور سوچ رہا تھا وہ کون ہے، کہاں ہے، میں جس کے سامنے کھڑا ہوں۔ جو مجھے دیکھ رہا ہے، میں جس کے رابطے میں ہوں۔ 

بات یہ ہے کہ جسے پتہ ہے آپ کہاں ہیں، آپ بھی جان سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہے۔ آخر کوئی تعلق تو ہے، رابطہ تو ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد آیا میں نے ایک ایسے پڑھا تھا پینتیس چالیس سال پہلے۔ اور پھر کچھ سال پڑھایا بھی تھا۔ سر جیمز جینز کا لکھا ہوا ایسے، دا ڈائنگ سن۔

ہماری زمین، اور زمین میں ہمارا گھر، اور ہم۔ کتنی بڑی زمین ہے اور کتنا چھوٹا سا گھر۔ جو بہرحال ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ یہ زمین ایک اپنی ہی طرح کے سیارے جوپیٹر سے اتنی چھوٹی ہے، کہ اس طرح کی کئی ایک زمینیں اس جوپیٹر میں سما جائیں۔ اور وہ جوپیٹر جو اتنا بڑا ہے، ہمارے اس سورج کے سامنے اتنا چھوٹا ہے، کہ اس سورج میں اس جیسے اربوں کھربوں جوپیٹر سما جائیں۔ 

ہمارا یہ اتنا بڑا سورج اس کائنات کا ایک چھوٹا سا ستارہ ہے۔ زیادہ تر ستارے اس سے بڑے ہی ہیں۔ اور بعض ستارے اتنے بڑے ہیں، کہ اس طرح کے سورج جیسے ان گنت ستارے اپنے اندر سمو لیں۔ 

کائنات میں بڑے بڑے ستاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے جتنی اس زمین کے تمام ساحلوں پر ریت کے ؒذرات کی تعداد۔ شائد اس سے بھی زیادہ۔ 

اور وہ اتنے بڑے بڑے اور اتنے زیادہ ستارے، ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں، کہ شائد ہی کبھی کوئی ستارہ کسی دوسرے ستارے کے قریب سے گزرا ہو۔ اتنا قریب سے کہ چھوٹے ستارے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا ہو۔ ایک ستارہ دوسرے ستارے سے اربوں کھربوں نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ جیمز جینز کے ساتھ ساتھ سوچتا جائے، تصور کرتا جائے، تو حیران رہ جاتا ہے، کہ کتنے بڑے بڑے ستارے ہیں، اور کتنی زیادہ تعداد میں ہیں، اور کتنے دور ہیں ایک دوسرے سے۔ کتنے کتنے بڑے فاصلے پر۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نماز پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا، وہیں کہیں میرا خالق و مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ کیسی محبت سی جاگ اٹھتی ہے اس تصور سے۔ وہ بھولا نہیں ہے مجھے، اور اس نے چھوڑا بھی نہیں ہے۔ اپنے پاس سے دور بھیج کر بھی وہ مجھ سے رابطے میں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد آیا میں نے کائنات کی تصویریں نکالی تھیں ایک بار، درمیان میں ایک لائٹ سی تھی اور اردگرد ستارے ہی ستارے، اور سب گھومتے ہوئے۔ مجھے ایک دم خیال آیا اس کائنات کے اس سینٹر میں میرا مالک و رازق ہے۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ پوچھیں تو یہ عشاء کی نماز بڑی خوبصورت تھی۔ بہت دیر تک یہ تصور چلتا رہا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنے قرب کی کیفیت سے آشنا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, April 20, 2025

کوئی کام چن لو ، کسی کام کی ٹھان لو


 کوئی کام چن لو، کسی کام کی ٹھان لو، کسی کام کو زندگی کا مقصد بنا لو۔ روزانہ کا حسب توفیق قرآن پاک پڑھو، اول وقت میں نماز ادا کرو، اور خدمت خلق کا کوئی کام پسند کر لو، جو بھی دل کو اچھا لگے، جو بھی آسان لگے، اور پھر اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر کرنے لگو، اس کا حکم سمجھ کر بجا لانے لگو۔ جیسا بھی دل مانے۔ بس یوں سمجھ لو وہ کام اللہ کا کام سمجھ کر کرنا ہے۔ کوئی بھی کام، جو آپ کو اپنے ہنر یا سکل کے مطابق محسوس ہو، اپنی استطاعت کے مطابق محسوس ہو، اپنی حیثیت کے مطابق محسوس ہو۔ اور جو دوسروں کے لئے ہو۔ 

مثلا میں نے فیصلہ کیا ہے، کہ میں یہ پوسٹ لکھنے والا کام، اللہ کا حکم سمجھ کر کرنے لگوں۔ اپنی مرضی بالائے طاق رکھ دوں۔ بس میں عبادات کی تعریف کروں، مسلمانوں کی توصیف کروں، مثبت رہنے کی تلقین کروں، اور ایسی ہی ایک دو اور باتیں۔ 

ولا تہنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ بھی اپنے لئے کوئی کام چن لیں۔ آپ ﷺ  کے اسوہ حسنہ کا مطالعہ کریں، اور کوئی کام چن لیں، جو دوسروں کے لئے ہو۔ باقی زندگی جس طرح گزر رہی ہے گزارتے جائیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں کو نیک مقاصد دینے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Saturday, April 19, 2025

میں ظہر کی نماز میں کھڑا تھا


 میں ظہر کی نماز میں کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا، میں اس وقت لائن پر ہوں، میں اس وقت اونلائن ہوں، میں ملاقات میں ہوں۔ ویسے تو ہر وقت ہی اس کی نظر میں ہوں، لیکن یہ وقت خصوصی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اونلائن ہونے کی تو بات ہی اور ہے۔ 

میں سوچوں وہ ذات کتنی بزرگ ہے، کتنی بڑی ہے۔ میں تصور ہی نہیں کر سکتا۔ میں سوچ ہی نہیں سکتا وہ کیا ہے، کون ہے۔ مجھے جو کچھ بھی معلوم ہے، جو کچھ بھی بتایا گیا ہے، وہ کتنا کم ہے۔ اللہ۔ اللہ تعالیٰ۔ میں اس کائنات کو ہی نہیں سوچ سکتا، میں اس نظام شمسی کا ہی ادراک نہیں کر سکتا،  اس زمین کا ہی احاطہ نہیں کر سکتا، اور وہ کائنات کا مالک اور خالق، اور وہ کائنات کو چلانے اور پرورش کرنے والا۔ 

میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ میری سوچ ہی نہیں جا سکتی اس تک۔ 

اور میں اس سے ملاقات میں ہوں۔ اور میں اس سے رابطے میں ہوں۔ 

اس نے مجھے مصلے پر کھڑا کیا ہے، اور ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ وہ مجھ سے رابطے میں ہے۔ 

میں سوچوں میں کیا ہوں۔ میں تو شائد ایک لفظ بھی نہیں ہوں۔ میں تو شائد ”میں“ ہی ہوں بس۔ ایک لفظ۔ اور وہ سب کچھ ہے۔ وہ کیا کچھ ہے۔ 

یہ اس کی محبت ہے جو میں اس کے سامنے کھڑا ہوں۔ اس سے رابطے میں کھڑا ہوں۔ یہ اس کی محبت ہے جو وہ مجھے مصلے والے رابطے میں لے آیا ہے۔ 

یہ اس کی محبت ہے بس۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت خوبصورت نماز تھی یہ ظہر والی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی موجودگی کا احساس عنایت فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 

Wednesday, April 16, 2025

ظاہر ہے یہ سب اتفاق ہو گا

 



ظاہر ہے یہ سب اتفاق ہو گا ۔ میں اب دوبارہ کروں گا تو ہو سکتا ہے ایسا بالکل نہ ہو ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چار پانچ سال پہلے مجھے ایک بات سمجھ آئی ، کہ نماز کو ترجیح دو ، ہر کام ، ہر شخص ، ہر چیز پر ترجیح دو ۔ میں نے ترجیح دینی شروع کر دی ۔ ادھر نماز کا وقت شروع ہوتا ، ادھر میں نماز کے لئے چل پڑتا ۔ اکیلے ملتی ، جماعت سے ملتی ، راستے میں ، یا سفر میں ، یا گھر پر ، میں نماز کو اول وقت میں ادا کرتا ۔ مزہ بھی بہت آتا ۔ میں بچوں کو سکول سے لا رہا ہوتا ، لے جا رہا ہوتا ، کہیں بھی ہوتا ، گھر کے کام پر یا سکول کے ، میں نماز کو کسی دوسرے کام کے لئے موخر نہ کرتا ۔ اول وقت میں نماز پڑھنا ہی میری ترجیح تھی ، جیسی بھی مل جائے ، جہاں بھی مل جائے ۔

بہت مزہ آتا ، بہت سکون ملتا ۔ بہت کچھ ملتا ۔ اللہ تعالیٰ نے روٹی پانی بھی آسان کر دیا ۔ وقت میں برکت دے دی ۔ حفظ کروا دیا ۔ دہرائی کا وقت مل جاتا ۔ بہت کچھ تھا ۔ تین چار پانچ پارے بھی روزانہ کی تلاوت رہی ۔ ہر نماز میں پاوَ ، آدھا پارہ بھی پڑھنے کو مل جاتا ۔ عشاء کی نماز میں ایک پارہ حفظ بھی دہرانے کا وقت مل جاتا ۔

بس کرم ہی کرم تھا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گاہے بگاہے لوگوں کی باتیں سننے کو ملتیں ۔

’’دنیا کو بھی اس کا حصہ دینا چاہئے ۔ اب کچھ کاموں کو موخر نہیں بھی کر سکتا کوئی‘‘ ۔

’’سکول کا کام پہلے کرنا چاہئے ۔ نماز تو ذاتی کام ہے‘‘ ۔

’’بیوی بچوں کی ذمہ داری پہلے ہے‘‘ ۔

’’آپ ہر جگہ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ، یہ کیا بات ہوئی ‘‘ ۔

الغرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لوگوں کا مزاج غالب آیا ، اور میں نماز میں میں کوتاہی کرنے لگا ۔ اول وقت کی بجائے ، کہیں پہنچ کر ، کچھ ضروری کام نپٹا کر ، آرام سے ، تھوڑا بہت آگے پیچھے کر کے پڑھنے لگا ۔

اللہ تعالیٰ نے مصروفیت بھی بدل دی ۔ کام کچھ کے کچھ ڈال دیے ۔ روٹی پانی میں کچھ مشکل پیش آنے لگی ۔ اور حفظ اور دہرائی کا وقت نکالنا دوبھر ہو گیا ۔ ہر نماز میں پاوَ ، یا آدھا پارہ تلاوت کرنا تو درکنار ، تین چار آیات کی تلاوت بھی مشکل ہو گئی ۔ دل و دماغ پر عجیب طرح کی مصروفیتیں طاری رہنے لگیں ۔ عشاء میں ایک پارے کی تلاوت ، تہجد میں ایک پارے کی تلاوت ، محض خواب و خیال بن کر رہ گیا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب دوبارہ پتہ نہیں کب وہ سب کچھ نصیب ہو ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پتہ نہیں ہم مذہب کی جس روٹین میں لوگوں کو فٹ کرنا چاہتے ہیں ، اس میں لوگ فٹ ہو نہیں پاتے ۔ یہ ایک عجیب حقیقت ہے ۔ اسے بتاتا کوئی نہیں ہے ، کہتا کوئی نہیں ، لیکن اندر سے اسے سب جانتے ہیں ۔ نماز روزے کے بارے میں ہم لوگوں کا کرائیٹیریا اتنا سخت ہے ، کہ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت اس میں فٹ نہیں آتی ۔ ہم لوگوں کو ٹھیک کرتے کرتے خراب کر دیتے ہیں ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں آہستہ آہستہ ’’نارمل‘‘ ہو رہا ہوں ، اب شائد سب کو سکون ہو ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہوا کچھ اس طرح کہ میری کلاس کا ایک بچہ آخری پیریڈ میں نماز پڑھنے چلا جاتا ہے ۔ میں پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اسے دیکھ رہا ہوں ۔ ہمارے سکول کی مسجد میں جو ایک بجے والی جماعت ہوتی ہے ، وہ اس میں شامل ہوتا ہے ۔ چھٹی سے پہلے کلاس میں آ جاتا ہے ، اپنا کام وغیرہ بھی مینیج کر لیتا ہے ، لیکن جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے ضرور نکل جاتا ہے ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ مجھے مسجد میں ہی ملتا تھا ۔ میرا آخری پیریڈ خالی ہوتا تھا ، میں اول وقت میں نماز پڑھنے پہنچتا تو وہ بھی وہیں ہوتا ۔ میں اسے نہیں روکتا تھا ۔

کبھی کبھی کوئی دوسرے بچے بھی شریک ہو جاتے تھے اس کے ساتھ ۔ لیکن کوئی ایک دن آتا کوئی دو دن ، وہ تقریبا ہر روز ہوتا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس سال میرا آخری پیریڈ خالی نہیں بھی ہوتا ۔ ویسے بھی اول وقت والی فلاسفی کوئی اتنی شدومد سے زیر عمل نہیں رہی ، تو میں دیکھتا وہ میرے پیریڈ میں خاموشی سے نکل رہا ہے ۔ میں نے دوسرے بچوں کو ایک دو بار روکا ہو گا ، لیکن اسے کبھی نہیں روکا ۔ دوسرے بچوں کو بھی بس سرسری سا روکا ہو گا ۔ بعض دفعہ میرا آخری پیریڈ نہ لگا ہوتا ، اور میں مسجد میں جاتا ، تو وہ وہیں ہوتے ۔ میں انہیں اپنے ساتھ کھڑا کر لیتا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پچھلے دنوں کسی نے ان کی شکایت کی ، اور ٹیچرز نے سختی سے روک دیا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج آخری پیریڈ میں میں نماز پڑھنے پہنچا تو وہ نظر نہ آیا ۔ اور بھی کوئی بچہ نہیں تھا ۔

میں نماز کے بعد کلاس میں گیا تو چھٹی ہو چکی تھی ۔ وہ بیگ اٹھا کر گھر جا رہا تھا ۔ میں نے کہا ، نماز کے لئے نہیں آئے ۔ کہتا ہے ، سر نے آنے نہیں دیا ۔ میں نے کہا ، اچھا میں بات کروں گا ، تم کل سے آ جانا ۔ دوسرے بچوں کا میں کچھ نہیں کہتا ۔

میں نے اس کے متعلقہ ٹیچر سے بات کی تو وہ نہ مانا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں عجیب مخمصے میں پڑا ہوا ہوں ۔ مجھے لگتا ہے ، ہم سب اس بچے کی طرح ہیں ۔ ہم سب کسی نہ کسی کام ، شخص یا چیز کے ہاتھوں نماز پڑھنے سے روک دیے گئے ہیں ۔ تقریریں ساری یہی ہیں ، کہ نماز کو ہر کام پر ترجیح دو ، اصل کام نماز پڑھنا ہے ۔ باقی دنیا کی ہر چیز بے معنی ہے ۔ لیکن کوئی پڑھنے لگے ، تو کہتے ہیں ، دنیا کی حقیر سے حقیر چیز بھی نماز سے پہلے کر لو ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں معافی چاہتا ہوں ۔ میں تنقید نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن عجیب معاملہ ہے ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اللہ تعالیٰ نمازوں اور تلاوتوں کے معاملے میں ، ہم سب پر اپنا خاص الخاص فضل و کرم فرمائے ، آمین ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بقلم : حاوی شاہ

Tuesday, April 15, 2025

میں ابھی مغرب کی نماز کے تشہد میں

 

میں ابھی مغرب کی نماز کے تشہد میں بیٹھا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ نماز سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ مجھے ایک سوچ آئی، اب اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ 

”یہ جو پورے دن کا مقصد تھا، وہ تو یہی تھا، وہ تو یہی نماز تھی۔ اس سارے دن کی دوڑ دھوپ کا مقصد تو نماز ہی تھا۔ اس سارے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا مقصد تو یہی تھا، جو کر رہا ہوں۔ میں تو اپنی زندگی، اپنے وجود، اپنی موجودگی کے بہترین وقت میں ہوں۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی جو کر رہا ہوں، اس کو توجہ سے کر لوں۔ چند لمحے رہ گئے ہیں۔ ابھی جو کر رہا ہوں توجہ سے کر لوں۔ کوئی پتہ نہیں ابھی ایک لمحے میں کام بن جائے۔ 

”میں چاہتا کیا ہوں، مجھے انتظار کس بات کا ہے“ میرے اندر کسی سوچ نے وضاحت چاہی۔

”مجھے اور کسی چیز کی سمجھ نہیں آئی۔ مجھے کسی احساس، کسی سوچ کا علم نہیں ہے۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے، کہ نماز اور تلاوت میں کوئی خوشی ہے، کوئی خوبصورتی ہے۔ بس مجھے وہ تھوڑی سی اور مل جائے۔ بس میں چاہتا ہوں مجھے وہ خوشی اور خوبصورتی اور مل جائے، اتنی زیادہ مل جائے کہ مجھے کسی اور چیز کا احساس ہی نہ رہے۔ کسی اور چیز کے ہونے نہ ہونے کا احساس ہی نہ رہے۔ بس میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے۔ بس میں اسی لئے زندہ ہوں۔ بس میں اسی امید پر نمازوں اور تلاوتوں میں آ کھڑا ہوتا ہوں۔ شائد اس بار وہ خوشی اور خوبصورتی مل جائے، اور مل جائے، اور مل جائے۔ مجھے اتنا تو پتہ چل چکا ہے، کہ کوئی ہے۔ وہ قرب ہے یا نزدیکی ہے، جو کچھ بھی ہے، کچھ اور مل جائے۔ بس مجھے اور کسی چیز کی خواہش نہیں ہے۔ کسی چیز کا ڈر نہیں ہے۔ یہ کپڑے لتے، یہ کھانے پینے، یہ سب اسی کے لئے ہیں۔ یہ نمازوں اور تلاوتوں کا انتظار اسی کے لئے ہے۔ یہ زندگی کے شب و روز اسی خوشی کے لئے ہیں۔ وہ جو وضو کی تازگی ہے۔ وہ جو صاف ستھرا ہونے کا احساس ہے۔ وہ جو نمازوں اور تلاوتوں کا انتظار ہے۔۔ میں چاہتا ہوں یہ اور بڑھ جائے، یہ اور مل جائے۔۔۔۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں جب نماز سے باہر آیا تو ایک واضح فرق محسوس ہوا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نمازوں اور تلاوتوں کا خضوع و خشوع عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

     


Monday, April 14, 2025

بندہ روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو

 

بندہ روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو، بال بچے، روزگار، لوگ، اور اذان سنائی دے، اور بندہ محتاط ہو جائے، اسے خیال آئے ملاقات کے مواقع کھل گئے ہیں۔ اس کی حالت بدلنی شروع ہو جائے۔ وہ وضو کر رہا ہو، اور اسے خیال آئے، وہ جلیل القدر ذات جس سے ملاقات کرنے جا رہا ہے۔ بندے کی حالت کچھ اور سنجیدہ ہو جائے۔ 

اور وہ لمحہ کیسا ہوتا ہے، جب بندہ جائے نماز کی طرف بڑھ رہا ہو، اور سوچ رہا ہو، آج یا ابھی کی ملاقات کیسی رہے گی۔ اور وہ اپنے دل و دماغ میں عذر اور معذرتیں تلاش کر رہا ہو، اور وہ خوش ہو رہا ہو، یہ  یہ بات کروں گا، یہ یہ درخواست بجا لاؤں گا۔ 

اور پھر جب بندہ جائے نماز پر قدم رکھتا ہے، کیسا لمحہ ہوتا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ کسی کمرے میں، کسی دنیا میں داخل ہو چکا ہے۔ اور پھر نماز کے دوران اسے مختلف مراحل میں، مختلف احساسات کے دوران یاد آتا ہے، وہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہے۔ وہ اسے دیکھ رہا ہے، اسے سن رہا ہے۔ اور اسے محسوس ہوتا ہے اس کا دل دھڑکنے لگا ہے۔ زور زور سے دھڑکنے لگا ہے۔ 

بس بندہ اسی حالت میں نماز ادا کرتا ہے، اور اسے محسوس ہوتا ہے، وہ کہیں اور ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے، اس نے یہ نہیں کہنا، یہ کہنا ہے۔ 

بس بندہ فرض، سنت، نفل، سب ادا کر لیتا ہے۔ اسے کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا۔ وہ اسی حضوری، اسی موجودگی میں رہتا ہے۔ 

اور پھر بندہ نماز سے باہر آتا ہے، اور اسے محسوس ہوتا وہ کہیں سے ہو کر آیا ہے۔ کسی کے سامنے سے آیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ نماز ایسی میٹھی اور خوبصورت ہوتی ہے، کہ اسے اگلی نماز کا انتظار لگ جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اعضاء و جوارح کو نمازوں اور عبادتوں کا انتظار عطا فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, April 13, 2025

فرض کریں مجھے کسی نے کہا

 

فرض کریں مجھے کسی نے کہا، فلاں شخص کے پاس جاؤ، بہت بڑا آدمی ہے، بہت بڑا بزنسمین ہے، تمہارا کام ایک چٹکی میں ہو جائے گا۔ 

وہ مجھے اس کا ایڈریس اور نمبر دیتا ہے۔ میں اس نمبر پر کال کر کے ٹائم لے لیتا ہوں۔ میں وقت پر پہنچ بھی جاتا ہوں۔ 

جانے سے پہلے اس بات کے پورے چانسز تھے، کہ میری ملاقات کینسل ہو جائے۔ مجھے فون آئے، کہ آپ کی ملاقات کا ٹائم اپروو نہیں ہو سکا۔ جانے سے پہلے اس بات کے پورے امکانات تھے، کہ میں بہترین کپڑے پہنوں، بہترین خوشبوئیں لگاؤں، اور خوب بن ٹھن کر ملاقات کے لئے جاؤں۔ جانے سے پہلے میں اس بڑی شخصیت کے بارے میں بھی جتنا کچھ ہو سکتا معلوم کر لیتا۔ وہ کیا پسند کرتا ہے، اسے کس قسم کی باتیں اچھی لگتی ہیں، کس قسم کا گیٹ اپ اچھا لگتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ 

اور میں نے اہتمام کیا بھی۔ میں نے جتنی بھی میری استطاعت تھی، اس بات کا اہتمام کیا، کہ وہ شخصیت مجھے پسند کرے، اور مجھے نوکری دے دے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جب میں ملاقات کے لئے اس عظیم شخصیت کے سامنے بیٹھا ہوں۔ تو یہ سوچنا کتنا احمقانہ محسوس ہوتا ہے، کہ میری ملاقات پتہ نہیں اپروو ہو یا نہ ہو، پتہ نہیں مجھے ملنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ اب تو میں سامنے بیٹھا ہوں۔ اب تو بات کرنے کا وقت ہے۔ ملاقات تو اپروو ہو چکی، وقت بھی مل چکا۔ اب اس پر کیا غور کرنا۔ 

میں کیسے کپڑے پہنتا، کیسا تیار ہوتا، وہ وقت بھی گزر چکا ہے۔ اب تو میں سامنے بیٹھا ہوں۔ اب تو میرا درخواست کرنے کا وقت ہے۔ اپنا مدعا بیان کرنے کا وقت ہے۔ اب تو یہ کہنے کا وقت ہے، کہ میں کیوں آیا ہوں، اور کیا چاہتا ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نماز ایسا ہی ایک خوبصورت لمحہ ہوتا ہے۔ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہو چکے ہیں، تو قبول ہونے، یا نہ ہونے کی فکر چھوڑ دیں۔ یہ فکر تو نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے کرنے والی تھی۔ آپ کا اہتمام کیسا ہے، یہ سب بھی پہلے سوچنے کی بات تھی۔ اب تو آپ کھڑے ہو چکے ہیں۔ اب تو آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ چکے ہیں۔ اس نے آپ کا اہتمام بھی قبول کر لیا ہے، اور آپ کی ملاقات بھی قبول کر لی ہے۔ اب تو اگلی بات کریں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو عبادات کی روح محسوس کرنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Friday, April 11, 2025

اگر آپ کوئی زیادتی کر جاتے ہیں

 

اگر آپ کوئی زیادتی کر جاتے ہیں، کسی کو برا بول جاتے ہیں، کسی کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں، کسی گھر والے، یا دوست، یا کولیگ کی، چاہے آپ حق پر ہی ہوں، اور آپ کو برا محسوس ہوتا ہے، آپ سوچتے ہیں، آپ ایسا نہ ہی کرتے تو اچھا تھا، آپ کا دل کرتا ہے، کسی طرح جلدی جلدی سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے، پہلے جیسا محسوس ہونے لگے، یہ جو بوجھ سا آ پڑا ہے، ہٹ جائے، تو آپ خوش قسمت ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو صراط مستقیم دکھا رہا ہے، حق کا راستہ دکھا رہا ہے، وہ آپ کو اپنے قرب کی پہچان کروا رہا ہے، اپنی محبت کا احساس دلا رہا ہے۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کے آپ کے ساتھ ہونے کی نشانی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنے قرب و محبت کا احساس نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


  


مجھے تو لگتا ہے جیسے لالچ اور حرص

 

مجھے تو لگتا ہے جیسے لالچ اور حرص اور من مانی کی گنجائش دین کے راستے پر بھی نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں کئی بار محسوس کیا ہے، کئی بار تجربہ کیا ہے، کہ میں کوئی روٹین شروع کرتا ہوں، تلاوت کی، یا کسی پڑھائی کی، اور شروع شروع میں مجھے بہت لطف محسوس ہوتا ہے، اور میں اس وقت کا انتظار کرتا ہوں، جب میں نے وہ پڑھائی کرنی ہے، لیکن بعد میں میں اس وقت کے علاوہ بھی وہ وظیفہ کرتا ہوں، اور پھر ساری خوشی اور خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے۔ 

بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے میں نے درود ابراہیمی کی ایک چھوٹی سی کتاب بنائی۔ میں نے سو بار درود ابراہیمی لکھا اور اس کی بائنڈنگ کر لی۔ میں رات تہجد کے وقت اٹھتا اور سو درود شریف کی وہ کتاب ختم کر لیتا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ مجھے تہجد کا انتظار رہنے لگا۔ میں بڑے شوق سے سوتا اور تہجد کے وقت اٹھتا۔ مجھے وہ سو درود شریف پڑھنا بہت اچھا لگتا۔ اتنا اچھا لگتا، کہ میں سارا دن بے قرار سا رہتا۔ 

میرا دل کرتا میں دن کے کسی فارغ وقت میں بھی درود شریف پڑھتا رہوں۔ بظاہر تو ایسی کوئی بات نہیں تھی، لیکن ہوا کچھ اس طرح، کہ دن کے وقت بھی مجھے کوئی گھنٹہ آدھا گھنٹہ ملتا تو میں وہ کتاب پڑھنے لگتا۔ پھر یوں ہوا کہ میں نے وہ کتاب سفر میں بھی ساتھ رکھنا شروع کر دی۔ 

لیکن ایک عجیب کام ہوا، کہ کچھ عرصے بعد میرا تہجد میں اٹھنے والا ذوق ماند پڑ گیا۔ میں کچھ اور پڑھنے لگا، اور دن کے وقت بھی درود شریف پر قائم نہ رہ سکا۔ 

اور بھی کئی بار ایسا ہوا۔ میں نے کوئی روٹین شروع کرنی، اور پھر دوسرے اوقات میں بھی اس روٹین کو اپنا لینا۔ بس اس کی خوشی اور خوبصورتی ختم ہو جانی۔ 

اب آ کر مجھے سمجھ آئی ہے، کہ بندہ اتنا ہی پڑھتا رہے، اسی وقت پر پڑھتا رہے۔ بس اس چیز کو دیکھے، کہ دل انتظار کرے۔ پھر سے پڑھنے کا انتظار کرے۔ 

اصل چیز انتظار ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو دین کی محبت اور طلب عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


  


Thursday, April 10, 2025

بعض دفعہ بندے کو کسی بات کی سمجھ آ جاتی ہے


 بعض دفعہ بندے کو کسی بات کی سمجھ آ جاتی ہے، اور خوشی بھی محسوس ہوتی ہے، اطمئنان بھی نصیب ہوتا ہے، لیکن وہ علم، وہ سمجھ مستقل نہیں رہتی۔ بندہ پھر اسی پہلے والی ناسمجھی اور نادانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوا یہ کہ کل میری موٹر سائیکل پنکچر ہو گئی۔ پنکچر لگانے والے نے کہا، دو پنکچر ہیں۔ مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میرے پاس پہلے ہی پیسے بہت کم تھے۔ خیر میں نے اسے ہاں دی۔ 

”یار دیکھ لینا کیل نکل گیا ہے“۔

اس نے خوب تسلی سے کام کیا، مجھے بڑا یقین دلایا کہ اب کم از کم یہ والے پنکچر نہیں کھلیں گے۔ میں نے دو سو روپے دیے، اور موٹر سائیکل گھر لے آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

میں آج زارا کو لے کر آ رہا تھا تو موٹر سائیکل پھر پنکچر ہو گئی۔ ہمیں دھوپ میں دس پندرہ منٹ چلنا پڑا۔ ایک پنکچر والے کے پاس پہنچے، چھوٹا سا بچہ تھا، اس نے بڑی محنت سے پنکچر لگائے، کل والا ایک پنکچر لیک ہو چکا تھا، اور ایک نیا تھا۔ میں نے ڈھائی سو روپے دیے، اور گھر روانہ ہو گیا۔ اس کام میں ہمیں آدھے گھنٹے سے زیادہ لگ گیا۔ 

گھر پہنچنے تک موٹر سائکل پھر پنکچر ہو چکی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یار لگتا ہے ٹیوب ہی نئی ڈلوانی پڑے گی۔ گرمیوں کے دن ہیں، یہ پنکچر ہر روز کھلیں گے۔ اتنی دھوپ میں بہت مشکل ہوتا ہے موٹر سائیکل گھسیٹ کر پنکچر والے تک پہنچنا“ میں نے حسن سے مشورہ لیا۔

چار و ناچار ہم ایک پنکچر والے کے پاس پہنچے۔ اس نے ٹائر کھول کر کہا، کہ ٹائر پھٹڑ ہو چکا ہے، اگر تبدیل نہ کروایا، تو بہت رسکی ہو گا۔ کسی وقت بھی پنکچر ہو سکتا ہے۔ 

”دراصل ٹائر چٹکی کاٹنے لگا ہے۔ وہ کسی بھی ٹیوب کو نہیں چھوڑے گا۔ آپ ٹائر بدلوا لیں“ اس نے بات ختم کی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پاس پہلے ہی پیسے نہیں تھے۔ میں ٹائر کا سن کا اور بھی پریشان ہو گیا۔ پہلے تو میں نے کہا ٹیوب ہی بدل دو، لیکن بعد میں مجھے اس کی بات ٹھیک لگی، یہ ٹائر دو لاکھ کلو میٹر چل چکا تھا، گھس ہی چکا ہو گا۔ 

”زارا بیچاری کو کہاں تکلیف دیتا پھروں گا ہر دوسرے دن۔ بدلوا ہی لوں“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساڑھے چار سو پنکچروں کا، اور اب یہ ڈھائی ہزار ٹائر ٹیوب بدلوانے کا۔ تین ہزار کے خرچے نے جیسے میرا یقین ہی ختم کر دیا ہو زندگی پر سے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”یار کیا کرے بندہ۔ کچھ سمجھ آتی ہے آپ کو؟“ میں نے حسن سے کہا۔ 

حسن خاموش رہا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے ایک سمجھ آئی ہے اس سارے کام میں۔ 

ؔ ”کیا؟“ حسن نے شکر کیا کہ خاموشی ٹوٹی ہے۔ 

”انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یار ہم یہ فوتگیوں پر پڑھتے ہیں، لیکن دراصل یہ زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا پیٹرن ہے“۔ 

”مجھے پتہ کیا سمجھ آئی ہے۔ یہ پیسے کسی کی جیب سے میری جیب میں آئے تھے، اور ایک بار پھر کسی اور کی جیب میں چلے گئے۔ یہ میرے نہیں تھے۔ ہمارے نفع نقصان، خوش گم، عزت بے عزتیاں، بس ایسے ہی گھوم رہے ہیں، ایک ہاتھ سے، ایک جیب سے، ایک دل سے دوسرے ہاتھ، جیب یا دل کی طرف۔ یہ کسی کے نہیں ہیں“۔ 

”یہ نفع نقصان میرے نہیں ہیں۔ یہ زندگی میری نہیں ہے۔ یہ سب کچھ، یہ دنیا، یہ ارد گرد، یہ میرا نہیں ہے۔ یہاں کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ ہمارا نہیں ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا ہے۔ یہ اسی نے بنایا ہے، اور وہی اس سب کو چلا رہا ہے۔ 

وہ مالک ہے، وہ ہماری زندگی جیسی چاہے چلائے، جیسی چاہے گزروائے۔ ہمارے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں ہے کوئی۔ سب کچھ اس جیب کے پیسے کی طرح ہے۔ آج میرے پاس ہے، کل کسی اور کے پاس ہے۔ 

مجھے یہ سمجھ آئی ہے، کہ میں اپنی زندگی پر، اپنی تنگدستی پر، اپنی کسمپرسی پر خواہ مخواہ پریشان ہوں، خواہ مخواہ نالاں ہوں۔ شکایت کناں ہوں۔ میرا کیا حق ہے اپنی زندگی پر۔ جس نے دی ہے، وہ جیسی چاہے بس کروائے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس یہ سوچ چلتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے لگا میں بہت خوش ہوں۔ میرا دل چاہا یہ سوچ میری ساری زندگی پر محیط ہو جائے، یہ کبھی نہ بھولے۔ میں بس اسی ایک سوچ پر زندگی گزار لوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو واقعات کی حقیقی سمجھ عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


 


Wednesday, April 9, 2025

اپنے ہی خیال سے ، اپنی ہی سوچ سے


 اپنے ہی خیال سے، اپنی ہی سوچ سے گدگدی محسوس ہونے لگتی ہے۔ بندہ رات کو جلدی سونے کی کوشش کر رہا ہو، اپنے تمام کام نپٹانے کی کوشش کر رہا ہو، تھوڑا تھوڑا جلدی میں بھی ہو، اپنے بیوی بچوں کا بھی سوچ چکا ہو، کہ کسی کو کوئی کام تو نہیں ہے، کسی نے کوئی کام کہا تو نہیں ہوا، اور دل و دماغ میں بس ایک ہی سوچ ہو، ایک ہی احساس ہو، کہ صبح نماز کے لئے اٹھنے میں دیر نہ ہو جائے۔

ویسے تو یہ احساس عشاء پڑھتے ہی طاری ہو جاتا ہے، لیکن آج کل کے روز مرہ میں ہم کچھ وقت لے ہی لیتے ہیں عشاء کے بعد بھی۔ لیکن وہ وقت بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ آپ بار بار چونکتے ہیں، بار بار ہوش میں آتے ہیں۔

مجھے بڑا مزہ آتا ہے، جب میں اپنے کسی ایسے لمحے کو پکڑتا ہوں، اپنی کسی ایسی حرکت کو پکڑتا ہوں۔ میں بظاہر فیملی میں بیٹھا ہوں، بظاہر گپ شپ لگا رہا ہوں، لیکن میرے دل و دماغ میں تہجد اور فجر کا نقشہ گھوم رہا ہو، کہیں دیر نہ ہو جائے، جلدی جلدی سو جاؤں، ٹائم زیادہ ہو رہا ہے۔ 

بڑا خوبصورت سا، چھوئی موئی کی طرح کا احساس ہوتا ہے ایسا احساس۔ کوئی پوچھے جو یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو نمازوں کی محبت اور رغبت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Friday, April 4, 2025

آپ کا اللہ تعالیٰ سے جیسا بھی تعلق ہے


 آپ کا اللہ تعالیٰ سے جیسا بھی تعلق ہے، وہی آپ کی روحانیت ہے۔ آپ جیسے بھی مسلمان ہیں، وہی آپ کی روحانیت ہے۔ اگر آپ سوچ سمجھ کر اس سفر پر نہیں نکلے ہوئے، تو بغیر سوچے سمجھے اس سفر پر نکلنا ہی آپ کی روحانیت ہے۔ 
آپ کا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا ہی آپ کی روحانیت ہے۔ آپ کیا مانگتے ہیں، کس طرح مانگتے ہیں، کیوں مانگتے ہیں، یہی آپ کی روحانیت ہے۔ 
آپ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہی آپ کی روحانیت ہے۔ 
آپ کا قرآن پاک کی طرف رویہ آپ کی روحانیت ہے۔ 
آپ کا لوگوں کی طرف رویہ آپ کی روحانیت ہے۔ 
آپ کا دنیا کی طرف رویہ آپ کی روحانیت ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو جو انسان بھی اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے، آپ ﷺ  کی رسالت پر ایمان رکھتا ہے، اور مسلمان مرنا چاہتا ہے، وہ روحانیت کے سفر پر ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب اپنے اپنے طور پر روحانیت کے سفر پر ہیں، ہر ایک کے اپنے اپنے تجربات ہیں، اپنے اپنے مشاہدے ہیں۔ 
میں نے روحانیت کے سفر میں کچھ رکاوٹیں دیکھیں۔ میں انہیں عبور کرتا ہوں، لیکن وہ پھر آ جاتی ہیں۔ 
مجھے سمجھ آئی کہ اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈنا، یا تلاش کرنا، یا پانا، یہ سب فضول کنسپٹس ہیں۔ بلکہ یہ رکاوٹیں ہیں۔ 
حالت ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے، ہر وقت ہے۔ بس اس حالت کا جتنا بھی ادراک ہو جائے، جتنا بھی احساس ہو جائے، جتنا بھی شعور ہو جائے۔ بس بندہ بار بار اسی حالت میں آتا ہے، اور اسی سے گرتا ہے۔ باقی سب حالتیں اسی ایک حالت سے پیدا ہوتی ہیں۔ 
مجھے سمجھ آئی کہ یہ جو موازنہ ہے، اپنی پہلی حالت سے یا دوسری سے، یا کسی اور کی حالت سے اور اپنی حالت سے، یہ اس ایک حالت پر نہ رہنے کی وجہ سے ہے۔ مجھے سمجھ آئی کہ میرے اندر کسی منزل یا کسی گول کا تصور نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی حالت میری آئیڈیل نہیں ہونی چاہئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہ میری سمجھ ہے۔ مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں، کہ میں اس پر کتنا قائم ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صراط مستقیم کی بہتر سمجھ عطا فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ