آج کل نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی کوششیں ماند پڑ چکی ہیں میری۔ گھر پر ہوتا ہوں تو فورا اٹھ پڑتا ہوں، لیکن باہر گیا ہوں تو گھر پہنچنے کا انتظار کرتا ہوں۔ کبھی کبھی کسی کو روٹین سے ہٹ کر نماز پڑھتے دیکھتا ہوں، کسی درخت کے نیچے، کسی دیوار کے سائے میں، تو بہت یاد آتا ہے وہ وقت۔ بڑی بڑی خوبصورت نمازیں نصیب ہوتی رہی ہیں اس دور میں۔ پتہ نہیں اب کب واپس جاتا ہوں اس پختہ ارادے میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل تہجد پڑھنے کے بعد فجر کی اذان تک کچھ ورد و وظائف کا موقع مل جاتا ہے۔ پھر کوئی بزرگ حضرت میاں محمد بخشؒ کے اشعار پڑھنے لگتے ہیں، اور سارا سماں ہی بدل جاتا ہے۔ اب تہجد کی وہ خاموشی تو محسوس نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی، لیکن پھر بھی میاں صاحبؒ کے اشعار ایک اپنا ہی رنگ پیدا کر دیتے ہیں تہجد اور فجر کے اس درمیانی وقت میں۔ بزرگ کی تیکھی سی، نحیف سی آواز ہوا کی لہروں پر تیرتی ہوئی ہمارے کمرے کی خاموشی میں داخل ہوتی ہے تو دل و دماغ میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ ہم میاں بیوی اپنے اپنے کونوں میں بیٹھے اس آواز کے سحر میں جکڑے جاتے ہیں۔
پھر ایک ایک کر کے اذانیں شروع ہوتی ہیں اور ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مختلف رنگوں کے سنگریزے دریا کی تہہ میں دیکھ رہا ہوں۔ دریا کا صاف شفاف پانی بہہ رہا ہے، اور قیمتی پتھروں کو اور بھی چمکیلا دکھاتا جا رہا ہے۔
آج کل میری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت یہی ہوتا ہے۔ مجھے ایک طرح کا پہلے سے انتظار لگ جاتا ہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں اذانیں شروع ہو رہی ہیں۔ اور پھر ایک ایک کر کے تمام مسجدوں سے اذانوں کی آواز رنگ برنگے گلدستوں کی طرح محسوس ہوتی، سماعتوں سے ٹکرانے لگتی ہے۔
ہمارے ہیڈماسٹر صاحب نے ایک گلدستے کی میم شئیر کی ہوئی تھی گروپ میں۔ سفید، زرد، گلابی اور بنفشی رنگ کے پھول تھے شائد۔ میں آج اذانوں کو ہیرے موتیوں کی تشبیہ میں سن رہا تھا، تو میرے ذہن میں اس گلدستے کی میم آ گئی۔
میں نے گلدستے کی میم پر یہ سب کومنٹ کیا تو میرا بھائی کہتا ہے، کہ اذانیں سننے سے متعلق ہوتی ہیں، تم انہیں ہیرے موتیوں یا گلدستوں سے کیسے تشبیہ دے سکتے ہو، وہ تو دیکھنے اور سونگھنے سے متعلق ہیں۔ میں کہا جس طرح آنکھوں کو رنگ بھلے لگتے ہیں، اسی طرح کانوں کو فجر کے وقت کی اذانیں بھلی لگتی ہیں۔
میں نے کہا یار اللہ تعالیٰ نے مجھے دین کے کسی نہ کسی پہلو محبت ضرور دے رکھی ہے ہر دور میں۔ آج کل فجر کی اذانیں میری محبت ہیں۔ وہ کچھ کہنے لگا تو میں نے کہا، چھوڑ دو۔
”وہ جو بات آپ کرنے لگے ہو، میں اس پر توجہ نہیں دیتا۔ میں بس خوبصورتی ڈھونڈتا ہوں۔ میرے لئے وہ سب بھی اس خوبصورتی کا حصہ ہے“۔ وہ ہنسنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل گمنامی کی بھی بڑی خواہش رہنے لگی ہے۔ کوئی جانتا نہ ہو۔ شکر ہے کوئی بہت زیادہ جانتے بھی نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی دل کرتا ہے، بندہ گمنام ہو۔ لوگوں کو نام تک پتہ نہ ہو۔ کوئی اوئے توئے کر بلا لے تو بلا لے۔ میں تصور کرتا ہوں، بندے کے دل میں اللہ تعالی کی محبت سما جائے، چاہے کتنی بھی خفیف سی، تو ایسے ہی چھپا چھپا رہنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ بندے کا دل کرتا ہے کچھ بھی پاس نہ ہو۔ کوئی پہچان، کوئی عہدہ، کوئی نام، کوئی شہرت عزت وغیرہ۔ میرا بڑا دل کرتا ہے بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو اور اکیلا ہو۔ کوئی اس کے ساتھ نہ ہو۔ زیادہ تر تو توحید کا یہی مطلب ہے، کہ اللہ ایک ہے۔ لیکن میرا دل کرتا ہے، میں بھی اکیلا ہی تنہا ہی جاؤں اس کے سامنے۔ میں اتنا کچھ ساتھ لے کر کیوں چلا جاتا ہوں۔ بہرحال یہ ایک محبت کا مقام ہے شائد۔
میں تصور کرتا ہوں تو مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔
میں اپنے بھائی سے کہہ رہا تھا، کہ تیس پینتیس سال کی عمر میں میں سوچتا تھا، کہ میرا نام ہو، لوگ میری تقریروں اور تحریروں کو پسند کرتے ہوں، میں اپنے بیوی بچوں کے سامنے سر اٹھا کر بیٹھوں۔
”لیکن یار اب یہ سب کچھ ختم ہو چلا ہے۔ میں سوچتا ہوں میں نے کیا کرنا ہے لوگوں کو۔ میں نے کیا کرنا ہے پیسوں کو۔ اب تو خیال آتا ہے، تو کہتا ہوں، یا اللہ، تیری مرضی ہے، لیکن میں نے کیا کرنا ہے یہ سب کچھ۔ میرے لئے تو تیرے علاوہ سب کچھ بے معنی ہوتا جا رہا ہے“۔
بہرحال یہ ایک بذات خود بڑی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے فنا فی اللہ کا راستہ کوئی ایسا ہی راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز سے کوئی تعلق اور مطلب باقی نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی محبت کا اسیر فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ