Wednesday, July 30, 2025

آج کل نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی

 

آج کل نماز کو اول وقت میں پڑھنے کی کوششیں ماند پڑ چکی ہیں میری۔ گھر پر ہوتا ہوں تو فورا اٹھ پڑتا ہوں، لیکن باہر گیا ہوں تو گھر پہنچنے کا انتظار کرتا ہوں۔ کبھی کبھی کسی کو روٹین سے ہٹ کر نماز پڑھتے دیکھتا ہوں، کسی درخت کے نیچے، کسی دیوار کے سائے میں، تو بہت یاد آتا ہے وہ وقت۔ بڑی بڑی خوبصورت نمازیں نصیب ہوتی رہی ہیں اس دور میں۔ پتہ نہیں اب کب واپس جاتا ہوں اس پختہ ارادے میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج کل تہجد پڑھنے کے بعد فجر کی اذان تک کچھ ورد و وظائف کا موقع مل جاتا ہے۔ پھر کوئی بزرگ حضرت میاں محمد بخشؒ کے اشعار پڑھنے لگتے ہیں، اور سارا سماں ہی بدل جاتا ہے۔ اب تہجد کی وہ خاموشی تو محسوس نہیں ہوتی جو کبھی ہوا کرتی تھی، لیکن پھر بھی میاں صاحبؒ کے اشعار ایک اپنا ہی رنگ پیدا کر دیتے ہیں تہجد اور فجر کے اس درمیانی وقت میں۔ بزرگ کی تیکھی سی، نحیف سی آواز ہوا کی لہروں پر تیرتی ہوئی ہمارے کمرے کی خاموشی میں داخل ہوتی ہے تو دل و دماغ میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ ہم میاں بیوی اپنے اپنے کونوں میں بیٹھے اس آواز کے سحر میں جکڑے جاتے ہیں۔ 

پھر ایک ایک کر کے اذانیں شروع ہوتی ہیں اور ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مختلف رنگوں کے سنگریزے دریا کی تہہ میں دیکھ رہا ہوں۔ دریا کا صاف شفاف پانی بہہ رہا ہے، اور قیمتی پتھروں کو اور بھی چمکیلا دکھاتا جا رہا ہے۔ 

آج کل میری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت یہی ہوتا ہے۔ مجھے ایک طرح کا پہلے سے انتظار لگ جاتا ہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں اذانیں شروع ہو رہی ہیں۔ اور پھر ایک ایک کر کے تمام مسجدوں سے اذانوں کی آواز رنگ برنگے گلدستوں کی طرح محسوس ہوتی، سماعتوں سے ٹکرانے لگتی ہے۔ 

ہمارے ہیڈماسٹر صاحب نے ایک گلدستے کی میم شئیر کی ہوئی تھی گروپ میں۔ سفید، زرد، گلابی اور بنفشی رنگ کے پھول تھے  شائد۔  میں آج اذانوں کو ہیرے موتیوں کی تشبیہ میں سن رہا تھا، تو میرے ذہن میں اس گلدستے کی میم آ گئی۔ 

میں نے گلدستے کی میم پر یہ سب کومنٹ کیا تو میرا بھائی کہتا ہے، کہ اذانیں سننے سے متعلق ہوتی ہیں، تم انہیں ہیرے موتیوں یا گلدستوں سے کیسے تشبیہ دے سکتے ہو، وہ تو دیکھنے اور سونگھنے سے متعلق ہیں۔ میں کہا جس طرح آنکھوں کو رنگ بھلے لگتے ہیں، اسی  طرح کانوں کو فجر کے وقت کی اذانیں بھلی لگتی ہیں۔ 

میں نے کہا یار اللہ تعالیٰ نے مجھے دین کے کسی نہ کسی پہلو محبت ضرور دے رکھی ہے ہر دور میں۔ آج کل فجر کی اذانیں میری محبت ہیں۔ وہ کچھ کہنے لگا تو میں نے کہا، چھوڑ دو۔ 

”وہ جو بات آپ کرنے لگے ہو، میں اس پر توجہ نہیں دیتا۔ میں بس خوبصورتی ڈھونڈتا ہوں۔ میرے لئے وہ سب بھی اس خوبصورتی کا حصہ ہے“۔ وہ ہنسنے لگا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل گمنامی کی بھی بڑی خواہش رہنے لگی ہے۔ کوئی جانتا نہ ہو۔ شکر ہے کوئی بہت زیادہ جانتے بھی نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی دل کرتا ہے، بندہ گمنام ہو۔ لوگوں کو نام تک پتہ نہ ہو۔ کوئی اوئے توئے کر بلا لے تو بلا لے۔ میں تصور کرتا ہوں، بندے کے دل میں اللہ تعالی کی محبت سما جائے، چاہے کتنی بھی خفیف سی، تو ایسے ہی چھپا چھپا رہنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ بندے کا دل کرتا ہے کچھ بھی پاس نہ ہو۔ کوئی پہچان، کوئی عہدہ، کوئی نام، کوئی شہرت عزت وغیرہ۔ میرا بڑا دل کرتا ہے بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو اور اکیلا ہو۔ کوئی اس کے ساتھ نہ ہو۔ زیادہ تر تو توحید کا یہی مطلب ہے، کہ اللہ ایک ہے۔ لیکن میرا دل کرتا ہے، میں بھی اکیلا ہی تنہا ہی جاؤں اس کے سامنے۔ میں اتنا کچھ ساتھ لے کر کیوں چلا جاتا ہوں۔ بہرحال یہ ایک محبت کا مقام ہے شائد۔ 

میں تصور کرتا ہوں تو مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔ 

میں اپنے بھائی سے کہہ رہا تھا، کہ تیس پینتیس سال کی عمر میں میں سوچتا تھا، کہ میرا نام ہو، لوگ میری تقریروں اور تحریروں کو پسند کرتے ہوں، میں اپنے بیوی بچوں کے سامنے سر اٹھا کر بیٹھوں۔ 

”لیکن یار اب یہ سب کچھ ختم ہو چلا ہے۔ میں سوچتا ہوں میں نے کیا کرنا ہے لوگوں کو۔ میں نے کیا کرنا ہے پیسوں کو۔ اب تو خیال آتا ہے، تو کہتا ہوں، یا اللہ، تیری مرضی ہے، لیکن میں نے کیا کرنا ہے یہ سب کچھ۔ میرے لئے تو تیرے علاوہ سب کچھ بے معنی ہوتا جا رہا ہے“۔

بہرحال یہ ایک بذات خود بڑی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے فنا فی اللہ کا راستہ کوئی ایسا ہی راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز سے کوئی تعلق اور مطلب باقی نہیں رہتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو اپنی محبت کا اسیر فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

    


Friday, July 25, 2025

میں یہ پوسٹ اس لئے کر رہا ہوں

 

میں یہ پوسٹ اس لئے کر رہا ہوں، کہ غیرت، انا، خودداری، عزت نفس، مروت وغیرہ کے ساتھ بہت سے غیر اسلامی لوازمات شامل ہو چکے ہیں، جن کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ 

ایک مسلمان کی غیرت، انا، خودداری، عزت نفس مروت وغیرہ بس غیر مسلم کے سامنے ضروری ہیں، اور وہ بھی دین سے جڑ کر۔ ہمیں کلمہ طیبہ کی حرمت کا پاس ہو، ہم صرف اللہ اور رسول ﷺ  اور غیر مسلم کے ہاتھوں کسی مسلمان پر ظلم و زیادتی دیکھ کر غیرت میں آتے ہوں۔ ہماری انا، خودداری، عزت نفس، مروت وغیرہ، بس غیر مسلموں کے سامنے ہوں۔ ہمیں فخر ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ جہاں تک اسلامی معاشرے، اور مسلم بھائی چارے، اور ایمان کی روشنی کا تعلق ہے، تمام مسلمان ایثار اور قربانی کے رشتے میں قائم ہیں۔

ایک مسلمان کی زندگی اسی تصور پر قائم رہنے، اور اسی تصور کو قائم کرنے پر خرچ ہونی چاہئے۔

اسلام اصل میں غیر مسلموں کے درمیان رہنے کا نصب العین ہے۔ اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے اور اس کی روح یہی ہے، کہ غیر مسلموں کے درمیان پہنچو، اور انہیں ایمان کی دعوت دو۔ اسلام کے بڑے بڑے شعائر دراصل اس دور سے متعلق ہیں، جب مسلمان اقلیت میں تھے۔

میری بڑی خواہش ہے کہ میں کسی غیر مسلم اکثریت میں زندگی گزاروں۔ تب مجھے اسلام کی سمجھ آئے گی، اور اپنے دل میں ایمان کی قدر و قیمت کا احساس ہو گا۔ یہ جو مسلمان غیر مسلم اکثریتوں میں رہ رہے ہیں، اگر انہیں احساس ہو، کہ اللہ تعالیٰ نے انہی کس عظیم مقصد کے لئے چنا ہے، تو رات دن شکر کرتے نہ تھکیں۔ ان کی تو زندگی صحیح معنوں میں پیغمبرانہ وصف کی حامل ہے۔ وہ تو صحیح معنوں میں اسلام کے اولیں مسلمانوں کی یادگار ہیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا شعور عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

  


Thursday, July 24, 2025

جو مجھے سمجھ آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ :

 

جو مجھے سمجھ آئی ہے، وہ یہ ہے کہ:

جب اللہ تعالیٰ آپ کو شعور عطا فرمائے، آپ نے دنیا اور آخرت میں سے آخرت کو چننا ہے۔ 

دنیا میں زندہ رہنے کے لئے کوئی کسب یا نوکری اختیار کرنی ہے۔ رزق حلال کمانا ہے، اور بیوی بچوں کی پرورش کرنی ہے۔ انہی کاموں میں دلچسپی لینی ہے جو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہیں۔ کم سے کم رزق پر، اور کم سے کم ضرورتوں پر گزارا کرنا ہے۔ 

مستقبل میں کیا ہو گا، دنیا کا کیا بنے گا، لوگ کیا کر رہے ہیں، ان باتوں سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ آپ کے ارد گرد ہیں، ان سے اچھا معاملہ رکھنا ہے۔ بس انہیں اچھائی کی دعوت دینی ہے، اور برائی سے منع کرنا ہے۔ 

قرآن و سنت کے تمام اعمال پر دل و جان سے عمل کرنا ہے، اور جہاں کہیں بھول چوک ہو جائے، توبہ اور استغفار کا سہارا لے کر، واپس آنا ہے۔

دن رات بس ایک ہی کوشش کرنی ہے، کہ دین پر زیادہ سے زیادہ کاربند ہوا جائے۔ جو وقت بھی میسر آئے، اس میں ذکر و اذکار، اور عبادات کی کثرت کرنی ہے۔ 

ہر حال میں سچ بولنا ہے، اور اپنی سی کوشش کے بعد ہر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا ہے۔ معلوم اور نامعلوم تمام امکانات میں اسی پر بھروسہ کرنا ہے۔ 

وہ تو ازل سے ہی چیزوں کو ٹھیک چلانے والا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صدق مقال اور اکل حلال کا شرف عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



Sunday, July 20, 2025

اللہ کا ایک بندہ ایک تپتی دوپہر کو


اللہ کا ایک بندہ ایک تپتی دوپہر کو ایک مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ لوگ ظہر کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ کچھ پڑھ چکے ہیں، اور کچھ پڑھ کر نکل رہے ہیں۔ اس نے بچپن میں کبھی نماز پڑھی ہو گی، لیکن ایک عرصے سے اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ اسے تو یہ بھی اندازہ نہیں رہا تھا، کہ نماز اسے یاد بھی ہے یا نہیں۔ اسے تو وضو کا بھی کچھ اندازہ نہیں تھا۔ لیکن لوگوں کو دیکھ کر اسے خیال آیا وہ بھی وضو کر کے نماز پڑھے۔
اسے اتنے سالوں بعد وضو کرنا بہت اچھا لگا۔ ایک تو گرمیوں کی دوپہر اور لو میں بھنا ہوا چہرہ، دوسرا مسجد کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی، صاف ستھرا وضو خانہ، اجلا اجلا سا صحن، اسے وضو کر کے مسجد کے برآمدے تک آنا بہت اچھا لگا۔ وہ ایک پنکھے کے نیچے کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اسے لگا وہ جنت میں آ گیا ہے۔ اسے بچپن کی بھولی بھولی نماز یاد آنے لگی۔ وہ رکعتیں یاد کرنے لگا۔ اسے کہیں کہیں دھوکا سا لگتا۔ لیکن وہ پڑھتا گیا۔
اسے وضو کی نمی اور پنکھے کی ہوا بہت بھلی لگ رہی تھی۔
اسے خیال آیا اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمان پیدا کر کے کتنا بڑا احسان کیا ہے اس پر۔ اسے ایمان کی نعمت عطا کر کے کتنا زیادہ رحم کیا ہے، کتنی بڑی مہربانی کی ہے اس پر۔ وہ جوں جوں نماز پڑھتا جاتا، اس کے دل و دماغ میں شکر کے جذبات مزید بڑھتے جاتے۔ وہ نماز کے بعد بھی کافی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ادراک کا در وا ہو چکا تھا۔ وہ مسلمان تھا، وہ اسلامی ملک کا شہری تھا، اس پر نماز پڑھنے کی ممانعت نہیں تھی، وہ مسلمانوں کے درمیان رہ رہا تھا۔ کتنی بڑی بڑی نعمتیں تھیں یہ سب۔ اس کا روزگار، اس کے بیوی بچے، اس کے دوست رشتہ دار، کوئی بھی ایسا مشکل نہیں تھا، کہ اسے نماز نہ پڑھنے دیتا، اسے قرآن نہ پڑھنے دیتا۔ وہ دین کی بات نہ کر پاتا۔
بس اس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو چکا تھا۔ وہ مسجد سے باہر آیا تو وہ ایک مختلف آدمی تھا۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ اسے ایمان کی خوشی اور خوبصورتی عطا ہو چکی تھی۔ اسے دنیا اور آخرت میں اپنی خوش قسمتی کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا احساس ہو چکا تھا۔
اگلے دن، اگلے ہفتے، اگلے مہینے، اس کا یہ احساس بڑھتا بڑھتا ایک دنیا ایک جنت بن چکا تھا۔ اس کی سیاہیاں اس کی سفیدیاں بن چکی تھیں۔ اس کے دل میں سوائے شکر کے اور کچھ نہیں تھا۔ وہ کتنا خوش نصیب تھا، وہ مسلمان ہے۔ اسے بس یہی یاد تھا، اور کچھ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو دین اور ایمان کی نعمت کا احساس نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : اسلام کا باطنی نظام کچھ اس طرح کا ہے ، کہ جتنا زیادہ ہم اسلام اور ایمان پر خوش ہوں گے ، جتنا زیادہ اسے اپنی خوش بختی سمجھیں گے ، اس کی قدر کریں گے ، اس نعمت اور احسان کا شکر ادا کریں گے ، اتنا ہی زیادہ خرابیوں اور کوتاہیوں سے دور ہوتے جائیں گے ۔ پہلے اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہے ، اس ایمان کی قدر کرنی ہے ، ایمان والوں کے درمیان رہنے کی قدر کرنی ہے ، پھر دوسری کوئی برائی دور ہو گی ۔

Saturday, July 19, 2025

آج قرآن پاک پڑھنے کے دوران

 

آج قرآن  پاک پڑھنے کے دوران، میرا ایک تیرہ چودہ سال کا سٹوڈنٹ کہتا ہے، قاری صاحب، یہ نماز پڑھتے ہوئے، عجیب عجیب سی باتیں کیوں آتی ہیں ذہن میں۔ پھر مجھے جلدی پڑ جاتی ہے۔ 

میں نے چھوٹے بڑے سب بچوں کو مخاطب کیا اور کہا، اس لئے کہ ہم اپنے آپ کو اچھا انسان نہیں سمجھتے۔ اپنے آپ کو خوش قسمت نہیں سمجھتے۔ 

بچو، ہم قرآن پاک پڑھ رہے ہیں، دنیا کا سب سے اچھا کام کر رہے ہیں، ہم خوش نصیب ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن پاک پڑھنے کی مہلت دی، سمجھ دی، ہمت دی، شوق دیا، اور بھی بہت کچھ۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو خوش قسمت نہیں سمجھیں گے، اپنی خوش قسمتی پر خوش نہیں ہوں گے، تو نماز کے دوران ہمیں عجیب عجیب طرح کے خیال آئیں گے۔ ہمارا دل کرے گا نماز جلدی جلدی ختم کر لیں۔ ہمارا دل نہیں لگے گا۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، ہمیں کلمہ پڑھنے، نماز پڑھنے، قرآن پڑھنے کی خوش قسمتی عطا فرمائی، ہمیں دنیا کے تمام دوسرے لوگوں سے ممتاز فرمایا، لیکن اگر  ہم اپنی خوش قسمتی پر خوش نہیں ہوں گے، تو ہمیں نماز اور تلاوت کے دوران عجیب و غریب خیال ضرور تنگ کریں گے۔ 

اور دوسری بات یہ کہ ہمارے ارد گرد مسلمان ہیں، ہم نے انہیں بھی اچھا اور خوش نصیب انسان سمجھنا ہے، انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے خوش قسمتی عطا فرمائی ہے، یہ اپنے آپ کو اچھا اور خوش قسمت سمجھنے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے، تو نماز میں عجیب عجیب خیال آئیں گے، اور ہمارا دل نہیں لگے گا نماز میں۔ ہمارا تلاوت کرنے کو بھی دل نہیں کرے گا۔ ہم نماز کو ہر کام پر ترجیح نہیں دیں گے۔ 

اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے۔ 

بچو، اگر آپ اس بات پر اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھو، کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمان پیدا کیا ہے، آپ کو اسلام، اور نماز اور قرآن جیسی خوبصورت نعمتیں دی ہیں، تو آپ کے اندر سے دوسری چھوٹی چھوٹی خرابیاں بھی دور ہو جائیں گے۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں گے، تو دوسری بھی ساری اچھی باتیں آپ کے اندر پیدا ہو جائیں گی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بظاہر بچوں کی سطح پر بات کر رہا تھا، کہ انہیں سمجھ بھی آ جائے، اور ان کے لئے مشکل بھی نہ ہو۔ لیکن مجھے لگا میں نے ٹھیک ہی بات کر دی ہے۔ دراصل بات ایسے ہی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام اور ایمان کی خوش قسمتی پر شکر ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Wednesday, July 16, 2025

کل شام میں اپنے گھر کی دہلیز پر

 

کل شام میں اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا تھا، کہ کنچے کھیلتے دو بچے لڑنے لگے۔ جیسے بچے لڑتے ہیں۔ ایک کا موقف کچھ اور ایک کا کچھ اور۔ کنچوں کا معاملہ تھا۔ میری کوئی دلچسپی نہیں تھی، مجھے کچھ پتہ بھی نہیں تھا، کیوں جھگڑ رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہوتے ہوتے بس ایک جملہ کان میں پڑا اور میں سوچنے لگا، اور تب سے سوچ رہا ہوں۔ 

ایک بچہ کہنے لگا ”دیکھ قاری صاحب کے گھر کے سامنے کھڑا ہے، جھوٹ نہ بول“۔

میں نے جب سے مدرسہ شروع کیا ہے، گلی کے بچوں نے مجھے قاری صاحب کہنا شروع کر دیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلی کے بچوں سے بہت بڑے بڑے بزرگوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ بڑے واقعات مل جاتے ہیں آپ کو گلی کے بچوں کے۔ 

ایک بزرگ گزر رہے تھے تو کسی بچے نے کہا، بھائی ٹھہر جا۔ بابا جی کے کپڑوں کو گیند لگ جائے گی۔ ساری رات عبادت کرتے ہیں۔ بزرگ رات کا کچھ حصہ عبادت کرتے تھے۔ بچوں کی بات سن کر ساری رات عبادت کرنے لگے، کہ بچوں کا گمان غلط نہ ہو جائے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سوچوں قاری صاحب کے گھر کی کتنی حرمت ہے، قاری صاحب کی کتنی عزت ہے ان بچوں میں۔ آخر کسی نے تو ان کو اس عزت کا بتایا ہو گا۔ ان کے ماں باپ کتنے سعادت مند ہیں، جنہوں نے ان بچوں کو دین کی عزت سکھائی۔ قاری صاحب کی عزت سکھائی۔ 

میں سوچتا ہوں قصور میرا ہے۔ یہ لوگ تو جو دے سکتے تھے انہوں نے دے دیا۔ اب ان کے معیار پر پورا نہ اتروں تو قصور میرا ہے۔ کیسے جھوٹ کی قباحتوں سے دور ہو جاؤں، کہ واقعی اس بچے کے جملے کا اہل بن سکوں۔ 

جس قاری صاحب کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ بولنے سے روک رہا ہے ایک بچہ، وہ قاری صاحب کتنے سچے ہونے چاہئیں۔ یہاں تک پہنچ کر جھرجھری آ جاتی ہے۔ کوئی عذر نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بچوں کے گمان پر پورا اترنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, July 13, 2025

بات کر رہا ہوں سیکھنے کی استعداد کی

 

بات کر رہا ہوں سیکھنے کی استعداد کی۔

سات دوست پہلی بار کسی فائیو سٹار ہوٹل میں گئے۔ وہ ایک جتنا پڑھے لکھے تھے۔ ایک جیسے ہی دیہی ماحول سے آئے تھے۔ 

دو تو دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی مہذب ہو گئے۔ ہوٹل کے صاف ستھرے، مہذب ماحول نے انہیں ایک لمحے میں مہذب بنا دیا۔ 

یہ وہ لوگ تھے جو ماحول سے ہی سیکھ جاتے ہیں۔ ان کے اندر ماحول سے متاثر ہونے والی عقل تھی۔ 

دو نے دیکھا لوگ کیسے سکون  سے  بیٹھے ہوئے ہیں، کیسے سلیقے سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان کے اٹھ کر آنے جانے کا طریقہ کیا ہے۔ وہ لوگوں کو دیکھ سن کر سیکھ گئے۔ 

ان کے اندر دوسروں کو دیکھ  سن کر سیکھنے کی عقل تھی۔

باقی تین نے کرسیاں گھسیٹیں، ایک پر خود بیٹھے ایک پر پاؤں پسارے۔ نہ جوتے اتارتے خیال کیا، نہ قمیصوں   کے بٹن کھولتے، بازو چڑھاتے۔ انہیں یہ بھی خیال نہ آیا، کہ دوسرے انہیں کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ 

تھوڑی دیر بعد ویٹر آیا، اور اس نے انہیں بڑی تمیز اور شائستگی سے بتایا، کہ سر آپ اس طرح نہیں بیٹھ سکتے، پلیز قمیصوں کے بٹن بند کر لیجئے، اور جوتے پہن لیجئے۔ 

ویٹر کی بات سن کر دو نے فورا پاؤں کرسیوں سے نیچے اتارے، جوتے پہنے اور قمیصوں کے بٹن بند کر کے مہذب انداز میں بیٹھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ویٹر سے لڑنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم میں سے ہر کوئی عقل کے ان چار درجوں میں سے کسی ایک پر ہے۔ یا کسی نہ کسی معاملے میں عقل کے ان چار درجوں میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات کرنے کا مقصد یہ ہے، کہ فطری طور پر جیسی بھی عقل ملی ہو، چننے کا موقع ملے تو کم از کم پہلے درجے کی عقل چنیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تہذیب اور شائستگی سیکھنے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 


Thursday, July 10, 2025

میں اکثر کہا کرتا ہوں ہم ایک اچھی قوم ہیں


میں اکثر کہا کرتا ہوں، ہم ایک اچھی قوم ہیں۔ میں تو اس بات پر بھی پہنچ چکا ہوں، کہ ہمیں اس بحث سے ہی نکل جانا چاہئے، کہ ہم ہیں یا نہیں ہیں، ہر صورت میں ہمیں لکھنا، کہنا اور سمجھنا یہی چاہئے کہ ہم ایک اچھی قوم ہیں۔ ہم اچھے لوگ ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں بینک پہنچا تو پانچ بجنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بیٹی کی فیس جمع کروانی تھی اور میرا خیال تھا، کل بارش نہ ہو جائے، اور جمعۃ المبارک کا کر کے، کوئی دیر سویر نہ ہو جائے۔ بہتر ہے ابھی کروا لوں۔ 

کسی وجہ سے بینک کا عملہ کسی بڑے لین دین میں مصروف تھا، اور عام لوگوں کا کافی رش لگ چکا تھا۔ اٹھارہ بیس کے قریب لوگ جمع تھے۔ کچھ کو بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی تھی۔ میں بھی ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ 

میں تقریبا آدھا گھنٹہ کھڑا رہا اور مجھے یقین تھا کہ اگلے ایک گھنٹے تک میری باری نہیں آنے والی۔ 

پھر پانچ بج گئے، اور سیکیورٹی گارڈز نے دروازہ بند کر دیا۔ دونوں تینوں سیکیورٹی گارڈز لوگوں پر نظر رکھے اندر کھڑے ہو گئے۔ 

میرے لئے زندگی میں انتظار کرنا، کب کا آسان ہو چکا ہے۔ کسی جگہ پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے ہونے میں بھی مجھے کوئی مذائقہ محسوس نہیں ہوا کبھی۔ لائنوں میں لگنا، تھڑوں پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرنا اب مشکل نہیں محسوس ہوتا۔ 

میں اپنی دانست میں آرام سے کھڑا تھا۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد باری آ جائے گی، بس ٹھیک ہے۔ آج کا کام آج ہو جائے گا۔ یہی بہت ہے۔ 

پتہ نہیں کیوں، ایک نوجوان سا سیکیورٹی گارڈ میرے پاس آیا اور کہتا ہے، بابا جی آپ آ جائیں کاؤنٹر پر۔ سیکیورٹی گارڈ جس کی باری تھی، اس کی منت کے انداز میں بولا، بزرگ ہیں، کافی دیر سے کھڑے ہیں۔ وہ بھی باعزت لہجے میں کہتا ہے، بابا جی آپ چلے جائیں کاؤنٹر پر۔ میں بعد میں چلا جاؤں گا۔ 

میں نے تھوڑی سی پس و پیش کی، لیکن پھر انکار نہ کر سکا۔ میں اس طرح کے احسان اس لئے بھی لے لیتا ہوں، کہ میرے انکار سے وہ احسان کرنا ہی نہ چھوڑ دے۔ یا دوسروں کا احساس کرنا، ان کی فکر کرنا ہی نہ چھوڑ دے۔ 

مجھے یہ بھی اندازہ ہے، کہ لوگ اس طرح کی مدد دوسرے کا احساس کر کے بھی کرتے ہیں، اور اپنے کسی عزیز کو یاد کر کے بھی کرتے ہیں۔ میں نوجوانی میں اکثر کھڑا ہو جاتا تھا کسی بزرگ کو دیکھ کر۔ اسے سیٹ دے دیتا تھا۔ میرے ذہن میں ہوتا تھا، کہ میرے ابو بھی بسوں ویگنوں میں سفر کرتے ہیں، کوئی انہیں بھی سیٹ دے دے گا۔ اور ابو نے کبھی گھر آ کر کہنا، کہ یار آج تو بہت اچھا ہوا۔ بھیڑ بھی بہت تھی ویگن میں، اور گرمی بھی بہت تھی۔ بھلا ہو کسی نیک ماں باپ کی اولاد کا، ایک لڑکا تیری عمر کا اٹھا اور کہتا ہے، بابا جی آپ بیٹھ جائیں۔ اللہ اس کا بھلا کرے۔ 

میں دل ہی دل میں مسکراتا، اور خوش ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں فیس جمع کروا کر بینک سے باہر آ گیا۔ آتی دفعہ میں نے اس سیکیورٹی گارڈ کو ہلکا سا شکریہ بھی کہا۔ لیکن میں نے اندر ہی اندر ایک فیصلہ کیا۔ میں نے سوچا، یہ احسان مجھ پر قرض رہے گا۔ اگر کبھی میری باری کسی اور کو دے دی جائے، یا کوئی اور لے لے، یا مجھ سے ریکوئسٹ کرے، کہ میں اسے پہلے جانے دوں، تو میں مائنڈ نہیں کروں گا۔ جھگڑا نہیں کروں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال، یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔ آپ سب کے ساتھ بھی کبھی نہ کبھی ایسا ہو چکا ہو گا۔ آپ سب نے بھی کسی پر تھوڑا سا احسان کیا ہو گا، اور کسی دوسرے نے بھی کبھی نہ کبھی ایسا احسان کیا ہو گا آپ پر۔ بڑا کام یہ ہے جو میں اب کر رہا ہوں۔ میں اسے لکھ کر شئیر کر رہا ہوں آپ سب سے۔ 

مجھے پتہ ہے اسے پڑھ کر اچھا ہی لگے گا کچھ نہ کچھ۔ اور یہی بہت ہے۔ 

اگر آپ سب بھی ایک ایک تجربہ ایسا شئیر کر دیں، تو فیسبک بھر جائے ایسے تجربات سے۔ ہم سب کتنا خوش ہوں۔ ہم اپنے آپ کو اچھے لوگ سمجھیں۔ اور ہمیں موقع ملے تو ہم بھی دوسروں کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ ہماری سوچوں کے زاویے اور رویے بدل جائیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی بجائے میں اگر ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہتا، اور مجھے کوئی باری نہ دیتا، کوئی سیٹ نہ دیتا، تو میں خاموشی سے چلا آتا، اور آ کر فیسبک پر لوگوں کی بے حسی پر سیخ پا نہ ہوتا۔ برے رویے پھیلانے کی کیا ضرورت ہے۔ اسے پڑھ کر لوگ یہی سمجھتے کہ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اور جانے والوں کو بھی یہی لگتا، کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔ غلط فہمی، بدگمانی وغیرہ کا بیج بویا جاتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اچھائی دیکھنے، اچھائی محسوس کرنے، اور اچھائی پھیلانے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


 

Sunday, July 6, 2025

کچھ لوگ اس لئے بھی نماز نہیں پڑھ پاتے

 

کچھ لوگ اس لئے بھی نماز نہیں پڑھ پاتے، نماز کی پابندی نہیں کر پاتے، کہ ان کے گھروں میں مصلّٰی بچھانے کی جگہ نہیں ہے۔ جگہ ہے بھی تو سامان اتنا زیادہ ہے، کہ نماز کی رغبت اور خوشبو دلوں میں گھر نہیں کر پاتی۔ ایک کمرے میں دس پرسنٹ جگہ پر سامان پڑا ہو اور نوے پرسنٹ جگہ خالی ہو، تو نماز میں رغبت ضرور محسوس ہو گی۔ اسی طرح وضو کرنے کی جگہ کا معاملہ ہے۔ ہمارے گھروں میں واش بیسن وغیرہ ہی پر وضو کر لیا جاتا ہے، جو انتہائی مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اگر چھینٹے پڑنے کے خوف یا غیر ضروری طور پر گیلے ہونے کا خوف نہ ہو، پاؤں، جوتے، جرابیں وغیرہ مناسب طریقے سے اتارنے کا انتظام ہو، تو وضو میں قدرے سہولت ہو جاتی ہے۔ صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ بنتا ہے نماز نہ پڑھنے کی۔ اگر آپ کو وضو میں آسانی نہیں ہے، مصلّٰی بچھانے میں مشکل ہے، تو یقینا آپ نماز کو موخر کریں گے، آپ میں سستی پیدا ہو گی، اور پھر نماز قضا اور فوت ہونا شروع ہو جائے گی۔

ہم اچھے لوگ ہیں، اور ہم میں سے اکثریت نماز کی پابندی کرنا بھی چاہتی ہے، لیکن ہمیں ان چیزوں اور باتوں کا احساس نہیں ہوتا، جو ہمیں نماز اور تلاوت سے روکتی ہیں۔

پھر طبیعت کی ایسی پختہ عادتوں کے ساتھ، بڑھاپے میں یا کسی اور جگہ پر وضو اور نماز کی آسانی مل بھی جائے، تو دل بے ایمان رہتا ہے۔ اصل میں دل اس حیل و حجت کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ تاخیر اور دیر کرنے کا۔ سستی کرنے کا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی حال ہمارے دل و دماغ کا بھی ہے۔ ہمارے مکانوں کی طرح ہمارے دل و دماغ میں بھی بہت سا غیر ضروری سامان جمع ہو جاتا ہے۔ دراصل ہمارے گھروں کا سامان ہمارے دل و دماغ میں جمع ہوتا ہے پہلے۔ 

ہمیں گھروں کی صفائی کی طرح وہاں بھی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے یہ سب کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سامان بھی ہماری زندگی کے لوگوں کی طرح ہوتا ہے۔ اتنی آسانی سے نہیں نکالا جا سکتا غیر ضروری لوگوں کو۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو ظاہر و باطن کی صفائی کا ادراک نصیب فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


جسم کی صفائی ، وضو اور غسل کے آداب

 

جسم کی صفائی، وضو اور غسل کے آداب، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کھانے پینے کے احکام وغیرہ، کپڑوں، گھروں اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین وغیرہ اسلام کا پہلا درجہ ہے۔ یعنی جسم اور ماحول سے متعلق ہر چیز صاف ستھری ہو۔ بندہ پاک صاف ہو کر رہے۔ ناخن تراشے، دانت صاف کرے، بال کتروائے، مونچھیں داڑھی بنوائے، اور ایسی ہی دوسری باتوں کا خیال رکھے۔ 

اور ایسے ہی نماز روزہ حج زکوٰۃ تلاوت وغیرہ کا اہتمام کرے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر بندہ یہ سارے کام کامیابی سے کر لے، اور نیت صاف رکھے، تو اللہ تعالیٰ اسے اگلے درجے میں داخل کر دیتا ہے۔ 

اب وہ دماغ کی کچھ ممنوعہ عادتوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

غصہ، حرص، حسد، نفرت، انتقام، کینہ، ہوس، غیبت، جھوٹ، بہتان، اور ایسی کچھ اور عادتیں جو دماغ کو گندہ اور پراگندہ کیے رکھتی ہیں۔ 

ان ساری باتوں سے بچنے کے لئے، اسے دنیا قربان کرنی پڑتی ہے۔ دنیا کے بہت سے فائدوں سے ہاتھ اٹھانا پڑتا ہے۔ زندگی میں قناعت، صبر، توکل، بردباری، شکر، عفو و درگزر، تحمل وغیرہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر بندے کا مطمع نظر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو، اور اس کی نیت خالص ہو، تو وہ اس دور سے بھی گزر جاتا ہے۔ 

تب اللہ تعالیٰ بندے کو تیسرے دور میں داخل کرتا ہے، جو روح کی صفائی ستھرائی سے مزین ہے۔ 

بندے کی نظر بس آخرت پر لگ جاتی ہے۔ وہ دنیا اور مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے نفع نقصان، عزت بے عزتی، خوشی غم، سب برابر ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے تعلقات سے نکل آتا ہے، اور بس اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی دنیا اور دنیا کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کی رضا ہی اس کی رضا بن جاتی ہے۔ وہ رات دن اسی کی مرضی سے سوتا جاگتا، اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے بھی آگے درجات ہیں، لیکن مجھے ان کا اندازہ نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرب و تعلق کے مدارج و منزلات طے کرنے میں استقلال اور استقامت نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



Saturday, July 5, 2025

کل جب میں جمعہ پڑھنے جا رہا تھا

 

کل جب میں جمعہ پڑھنے جا رہا تھا، تو انس بھی میرے ساتھ تھا۔ انس، خضر، اور حرم مجھ سے ناظرہ پڑھنے آتے ہیں۔ 

پچھلے جمعہ کو شائد تینوں میرے ساتھ تھے۔ میں نے کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی۔ بس ساتھ چلتے آ رہے تھے، اس کے بعد مسجد میں ادھر ادھر ہو گئے۔ 

حسن ویسے ہی میرے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن حسن کی موجودگی میں مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا، کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے، واچ کر رہا ہے، نوٹ کر رہا ہے۔ 

انس کے بارے میں مجھے محسوس ہوا، وہ مجھے نوٹ کر رہا ہے، اور جہاں جہاں، جس جس راستے سے گزر کر میں جا رہا ہوں، وہ میرے ساتھ ساتھ ہے۔ مسجد میں بھی وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ میں خطبہ جمعہ کے دوران جس طرح خطبہ سن رہا تھا، وہ بھی ویسے ہی سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں جس صف میں جہاں بھی کھڑا ہوا، وہ میرے ساتھ آ کھڑا ہوا۔ میں مسجد میں واقع مزار پر فاتحہ پڑھنے بیٹھا تو وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔

میں محتاط ہو گیا۔ مجھے خیال آیا، پتہ نہیں یہ بچہ کب تک اسی طرح بیٹھتا اٹھتا رہے، کہ قاری صاحب کو ایسے ہی کرتے دیکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ عجیب فیلنگز ہیں۔ آپ کو اچھا بھی لگتا ہے، کہ آپ کسی کی زندگی بنا رہے ہیں، لیکن احتیاط بھی محسوس ہوتی ہے، کہ کہیں کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے، جو خلاف شرع ہو۔ آپ جوتا اتارنے سے لے کر، جوتا پہننے تک ہر کام میں احتیاط کرتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انس چھ سات سال کا بچہ ہے۔ اس میں اتباع، اور اطاعت، اور عجز و انکسار کے مادے کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ناظرہ قرآن پاک، اور عربی کے کچھ صیغوں کے علاوہ میں نے اس کو ایک ہی سبق پڑھایا ہے، کہ اپنے آپ کو اچھا انسان سمجھنا ہے۔ میں اسے کہتا ہوں، روزانہ کم از کم دس بار کہو، میں ایک اچھا بچہ ہوں، میں لائق بچہ ہوں، میں ذمہ دار بچہ ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے لئے اچھی مثال بننے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 



Friday, July 4, 2025

بہت سے لوگوں کا خیال ہے ، کہ روحانی لوگ

 

بہت سے لوگوں کا خیال ہے، کہ مذہبی لوگ کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں، حقیقت کی دنیا سے دور، اپنی ہی کوئی دنیا بسائے۔ مذہبی لوگوں کا بھی دنیاداروں کے بارے میں یہی خیال ہے، کہ وہ کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں، حقیقت کی دنیا سے دور، اپنی ہی کوئی دنیا بسائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور اس کی آسائشوں کو، اس کی چکاچوند کر دینے والی رونق اور حقیقت کو، اور اس کی خوشیوں اور خوبصورتیوں کو محض کھیل تماشہ کہا ہے۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 

آپ جسے اپنی دنیا کہتے ہیں، وہ آپ کے ارد گرد کے کچھ لوگوں کی دنیا ہے، جن سے آپ متاثر ہیں۔ جن سے آپ بندھے ہوئے ہیں۔  انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اس کو کھیل کود اور لہو و لعب ہی حقیقت نظر آتے ہیں۔ 

ان کا تعلق جسم سے ہے۔ ظاہر ہے دنیا میں تو انسان کو جسم ہی ملا ہے۔ دماغ اور روح کا کس کو پتہ۔ وہ تو سب خیالی دنیا ہی محسوس ہوں گے۔ لیکن جنہیں دماغ اور روح کا پتہ ہے، ان کے لئے یہ جسم کی دنیا ایک خیال ہے۔ ان کے لئے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ بیمار ہو تو اس کا دل کرتا ہے صحتمند ہو جاؤں۔

گنہگار ہو تو دل کرتا ہے نیک بن جاؤں۔

بندہ صحتمند ہو رہا ہو، تو اسے ڈاکٹر کے بتانے کی ضرورت نہیں رہتی، کہ تم صحتمند ہو رہے ہو۔ اسے خود بھی اندازہ ہو جاتا ہے، کہ وہ صحتمند ہو رہا ہے۔ 

اسی طرح بندہ نیک ہو رہا ہو تو اسے کسی عالم یا صوفی کے بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ تم نیک ہو رہے ہو، اسے خود بھی محسوس ہو جاتا ہے، کہ وہ پہلے سے بہتر ہو رہا ہے۔ 

بس یہی صلاحیت اصل چیز ہے۔

بندے کو اپنی حالت کا احساس کرنا آ جائے۔

اس کے بعد حلال حرام کا اندازہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسے اندازہ ہو جاتا ہے، کہ کون سی چیز کھانے پینے سے نماز اور تلاوت کی لذت ماند پڑ گئی، اور کون سی چیز کھانے پینے سے نماز اور تلاوت کی لذت زیادہ ہو گئی۔ اسے اپنے جسم اور روح، جسم اور دماغ کے بیلنس کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ وہ استقامت والے راستے پر سفر کرنے لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جو ہم دیکھتے ہیں، کہ بزرگ لوگ ایک ہی جوڑے میں گزارہ کر رہے ہیں۔ یا دو جوڑے ہیں، ایک اتارا ایک پہن لیا۔ کئی پیوند لگے ہیں۔ لیکن نیا کپڑا نہیں پہنتے۔ پہنتے بھی ہیں تو اتار دیتے ہیں گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے، کہ انہیں اپنی کیفیت بدل جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ پتہ نہیں نئے کپڑوں کی کیفیت کیسی ہو۔ کم سے کم کھانے میں بھی گزارہ کر لیتے ہیں، کہ پتہ نہیں کس لقمے میں کیسی تاثیر ہو۔ پتہ نہیں پہلی کیفیت چھن نہ جائے۔ غرض یہ کہ لوگوں سے ملنے ملانے، رہائش اختیار کرنے، اٹھنے بیٹھنے میں محتاط ہو جاتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم دیکھتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ  کا طریقہ یہ تھا، کہ آپ ﷺ  ایک کام کو بس ایک ہی طریقے سے سرانجام دیتے تھے۔ ناخن تراشنے، نہانے دھونے، کھانے پینے، کپڑے اتارنے پہننے سے متعلق احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے، کہ آپ ﷺ  نے ہر کام سرانجام دینے کا ایک طریقہ رکھا ہوا تھا۔ شائد ہی ایسا ہوتا ہو کہ ایک کام ایک سے زائد طریقوں سے سرانجام دیا ہو۔ 

یہی استقامت کا راستہ ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ  کی سنت مبارکہ استقامت کے راستوں کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ  ایسا کوئی طریقہ وضع نہیں فرماتے ہوں گے، جو استقامت میں حائل ہو۔ 

ہمارے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے، کہ ہم سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ جوتے اتارتے وقت بائیں پاؤں سے اتارو، اور پہنتے وقت دائیں پاؤں سے پہنو، بس اسی میں بہتری ہے، اسی میں استقامت ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نیکی اور پرہیزگاری پہچاننے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Thursday, July 3, 2025

نبی کریم ﷺ سے صحابہؓ کی محبت

 

نبی کریم ﷺ سے صحابہؓ کی محبت کی دو احادیث مبارکہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو تمام احادیث مبارکہ ہی آپ ﷺ سے صحابہ کرامؓ کی محبت کا اظہار ہیں، لیکن مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ کا کچھ اپنا ہی رنگ ہے۔ جی چاہتا ہے، ایسی احادیث مبارکہ کندہ کروا کر اپنے سامنے رکھ لوں، اور ہر وقت پڑھتا رہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برکات مصطفیٰ ﷺ حاصل کرنے کا خوبصورت انداز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں، کہ جب رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے، تو مدینہ منورہ کے خدام اپنے برتن (جن میں پانی ہوتا) لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہو جاتے، آپ ہر ایک برتن میں اپنا دست مبارک ڈبو دیتے۔ بعض دفعہ سردی ہوتی، تو بھی اسی طرح کرتے۔
(صحیح مسلم، باب: قربہ ﷺ من الناس و تبرکہم بہ و تواضعہ لہم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کے وضو سے بچا ہوا پانی لینے کے لئے دوڑیں لگ جاتیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابو جحیفہ (وہب بن عبداللہ) کا بیان ہے کہ، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ سرخ چرمی جبہ میں تھے۔ میں نے حضرت بلالؓ کو دیکھا، کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا (بچا ہوا) پانی لیا، اور لوگ اس پانی کے لینے کے لئے دوڑ رہے تھے، جس کو اس میں سے کچھ ملتا، وہ اسے اپنے ہاتھوں پر ملتا، اور جس کو کچھ نہ ملتا، وہ دوسرے کے ہاتھوں کی تری لے کر مل لیتا۔
(صحیح بخاری، کتاب اللباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو آپ ﷺ سے محبت، محبت کا اظہار نصیب فرمائے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: حاوی شاہ

سیدوں کی عزت و تکریم کے دو واقعات


 سیدوں کی عزت و تکریم کے دو واقعات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان واقعات کی صحت بھی مل جائے گی۔ تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ، جو ایسے واقعات کا خاصہ ہے، حوالہ بھی مل جائے گا۔ میں کہتا ہوں، یہ واقعات کہانیاں ہی کیوں نہ ہوں، آپ انہیں آزما کر دیکھ لیں۔ لوگ کہتے ہیں، اصل بات یقین کی ہے، میں کہتا ہوں آزما کر دیکھ لیں۔ ان کہانیوں کا کونسپٹ غلط نہیں ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق میں ایک سید گھرانہ تھا۔ گھر میں ایک سید زادی اور اس کے بچے تھے۔ خاوند کا انتقال ہوچکا تھا۔ سید زادی بچوں کو ساتھ لے کر روزی اور پناہ کی تلاش میں عراق سے ثمر قند آگئی۔ ثمرقند اجنبی شہر تھا، کوئی جاننے والا نہ تھا۔ شام ہو گئی۔ سید زادی نے لوگوں سے دریافت کیا کہ شہر میں کون زیادہ سخی ہے جو ہم کو پناہ دے۔ لوگوں نے بتایا کے شہر میں دو ہی سخی ہیں، ایک حاکم وقت جو مسلمان ہے، اور دوسرا ایک مجوسی،  جو آگ کی عبادت کرتا ہے۔ سید زادی نے سوچا کے مجوسی تو مسلمان نہیں وہ کیا پناہ دے گا، حاکم کے پاس چلتی ہوں، شائد وہ کچھ کرے۔ سید زادی بچوں کو لے کر مسلمان حاکم کے پاس آئی اور کہنے لگی، میں آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوں، میرے خاوند کا انتقال ہوگیا ہے، میں بے بس ہوں، مجھے پناہ چاہئیے حاکم وقت نے جواب دیا تمہارے پاس کوئی ثبوت کوئی سند ہے کہ تم آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہو، آج کل ہر کوئی کہتا ہے، میں سید ہوں؟ سید زادی نے جواب دیا، میرے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے آپ کو دکھانے کے لئے۔ حاکم وقت بولا، میرے پاس بھی کوئی پناہ نہیں ہے ہر ایرے غیرے کے لئے۔ جواب ملنے پر سید زادی مجوسی کے دروازے پر آئی۔ سید زادی نے بتایا، کہ میں سید زادی ہوں، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوں۔ میرا خاوند انتقال کر گیا ہے۔ میرے ساتھ میرے بچے بھی ہیں۔ مجھے پناہ چاہئیے۔ مجوسی نے اپنی بیوی کو آواز دی، اور کہا ان کو عزت کے ساتھ گھر لے آؤ۔ مجوسی نے سید زادی اور اسکے بچوں کو کھانا کھلایا، رہنے کہ لئے چھت دی۔ آدھی رات ہوئی، حاکم وقت جب سو گیا تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک سونے کے محل کے سامنے تشریف فرما دیکھا۔ حاکم وقت نے پوچھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یہ کس کا محل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، یہ ایک ایمان والے کا گھر ہے۔ حاکم وقت کہنے لگا، میں بھی ایمان والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تیرے پاس ایمان کا کوئی ثبوت کوئی سند ہے تو دکھا دو۔ حاکم وقت کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، میری بیٹی تیرے پاس آئی اور تو نے اس سے سند مانگی۔ اب چلے جاؤ میرے پاس سے۔ حاکم وقت اسی وقت بیدار ہو گیا۔ وہ غصے اور افسوس سے اپنے  بال نوچنے لگا، منہ پر طمانچے مارنے لگا۔ جلدی سے ننگے سر، ننگے پاؤں باہر آیا، دربانوں سے پتہ کیا، اور آدھی رات کو ہی مجوسی کے گھر جا دستک دی۔ مجوسی جب باہر آیا تو حاکم وقت کہنے لگا، اپنے وہ مہمان مجھے دے دے۔ میں تجھے تین سو دینار دیتا ہوں۔ مجوسی نے کہا، تم مجھے ساری دنیا کی دولت بھی دے دو، تب بھی نہیں دوں گا۔ اور تم جو خواب دیکھ کر آئے ہو، وہی خواب میں نے بھی دیکھا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اپنی نظروں سے دور کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میری بیٹی کو سر ڈھانپنے کے لیے جگہ دی اور کھانا کھلایا آج میں نے تمہیں اور تمہارے خاندان کو بخش دیا۔ میرا سارا خاندان کلمہ پر ایمان لا چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے فرمایا، اے مجوسی تم نے میری بیٹی کو پناہ دی۔ جا تمہارا سارا خاندان جنتی ہے۔ مجوسی نے حاکم وقت سے کہا۔ جا چلا جا دیکھے ہوئے اور اندیکھے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ میں نے بند آنکھوں سے سودا کیا تھا۔ (خطبات مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت  ربیع بن سلیمانؒ کا واقعہ تو سب جانتے ہیں۔

حضرت ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا، میرے ساتھ میرے ساتھی بھی تھے۔ جب ہم کوفہ پہنچے، تو میں وہاں ضروریاتِ سفر خریدنے کے لیے بازاروں میں گھوم رہا تھا کہ دیکھا، ایک ویران سی جگہ میں ایک خچر مرا پڑا ہے تھا اور ایک عورت جس کے کپڑے بہت پرانے اور بوسیدہ تھے، چاقو لیے ہوئے اُس خچر کا  گوشت کاٹ کر ایک زنبیل میں رکھ رہی ہے۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ مردار گوشت لے جا رہی ہے، اس پر سکوت ہر گز نہیں کرنا چاہیے، شاید یہ عورت لوگوں کو یہی پکا کر کھلاتی ہو۔ سو میں چپکے سے اس کے پیچھے ہو لیا، اس طرح کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے، وہ عورت ایک بڑے سے مکان پر پہنچی جس کا دروازہ بھی بہت اونچا تھا۔ اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی کون ہے؟ اس نے کہا، کھولو، میں ہوں بد حال۔ دروازہ کھولا گیا اور گھر میں چار لڑکیاں نظر آئیں، جن کے چہرے سے بد حالی اور مصیبت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ وہ عورت اندر آ گئی اور زنبیل اُن لڑکیوں کے سامنے رکھ دی۔ میں کواڑوں کی درزوں سے جھانک رہا تھا۔ میں نے دیکھا اندر سے گھر بالکل برباد اور خالی تھا۔ اُس عورت نے روتے ہوئے لڑکیوں سے کہا ”اِس کو پکا لو، اور اللہ کا شکر ادا کرو“۔ وہ لڑکیاں گوشت کاٹ کاٹ کر، آگ پر بھوننے لگیں۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی۔  میں نے باہر سے آواز دی ”اے اللہ کی بندی، اللہ کے واسطے اِس کو نہ کھا“۔ وہ کہنے لگی، تُو کون ہے؟ میں نے کہا، میں ایک پردیسی ہوں۔ اُس نے جواب دیا، تُو ہم سے کیا چاہتا ہے؟  تین سال سے نہ ہمارا کوئی معین، نہ مدد گار۔ تو کیا چاہتا ہے؟“ میں نے کہا، مجوسیوں کے ایک فرقہ کے سِوا مردار کا کھانا کسی مذہب میں جائز نہیں۔  وہ کہنے لگی ”ہم خاندانِ نبوت کے شریف (سید) ہیں، اِن لڑکیوں کا باپ بڑا شریف آدمی تھا، وہ اپنے ہی جیسوں سے اِن کا نکاح کرنا چاہتا تھا، لیکن نوبت نہ آئی، اُس کا انتقال ہو گیا۔ جو ترکہ اس نے چھوڑا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔  ہمیں معلوم ہے کہ مردار کھانا جائز نہیں، لیکن اضطرار میں جائز ہوتا ہے۔ ہمارا چار دن کا فاقہ ہے“۔ ربیع کہتے ہیں، اس کے حالات سُن کر میں بے چین ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے آکر کہا ”میرا تو حج کا ارادہ نہیں رہا“۔  سب نے سمجھایا، لیکن میں نے کسی کی نہ سنی۔ میں نے اپنے کپڑے اور احرام کی چادریں اور جو سامان میرے ساتھ تھا، وہ سب لیا اور نقد چھ سو درہم تھے، وہ لیے اور ان میں سے سو درہم کا آٹا خریدا اور باقی درہم آٹے میں چُھپا کر اُس بڑھیا کے گھر پہنچا۔ اور یہ سب سامان اور آٹا وغیرا اس کو دے دیا“۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور کہنے لگی، اے ابنِ سلیمان، اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے اور تجھے حج کا ثواب عطا کرے اور اپنی جنت میں تجھے جگہ عطا فرمائے اور ایسا بدل عطا فرمائے جو تجھے بھی ظاہر ہو جائے“ ربیع کہتے ہیں، حج کا قافلہ روانہ ہو گیا، میں اُن کے استقبال کے لیے کوفہ ہی رُکا رہا تا کہ اُن سے اپنے لیے دعا بھی کرواؤں۔ جب حجاج کا ایک قافلہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو مجھے اپنے حج سے محروم رہ جانے پر بہت افسوس ہوا اور رنج سے میرے آنسو نکل آئے۔  میں اُن سے ملا تو میں نے کہا ”اللہ تعالٰی تمہارا حج قبول کرے اور تمہارے اخراجات کا تمہیں بہتر بدلہ عطا فرمائے“ اُن میں سے ایک نے کہا، کہ یہ کیسی دُعا ہے؟۔ میں نے کہا، اُس شخص کی دعا ہے، جو دروازہ تک کی حاضری سے محروم رہا۔ وہ کہنے لگے، بڑے تعجب کی بات ہے، اب تُو اِس سے بھی انکار کرتا ہے کہ تُو ہمارے ساتھ عرفات کے میدان میں نہ تھا؟ تُو نے ہمارے ساتھ رمی جمرات نہیں کی؟ تُو نے ہمارے ساتھ طواف نہیں کیے؟ میں اپنے دل میں سوچنے لگا، یہ اللہ کا لُطف ہے۔  اتنے میں میرے شہر کے حاجیوں کا قافلہ آ گیا۔ میں نے کہا، اللہ تعالٰی تمہاری سعی مشکور فرمائے، تمہارا حج قبول فرمائے۔ وہ بھی کہنے لگے، تُو ہمارے ساتھ عرفات میں نہیں تھا؟ رمی جمرات نہیں کی تُو نے ہمارے ساتھ؟ اب تو انکار کر رہا ہے۔ اُن میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہنے لگا، بھائی انکار کیوں کرتے ہو؟ تم ہمارے ساتھ مکہ میں نہیں تھے یا مدینہ میں نہیں تھے؟ جب ہم قبر اطہر کی زیارت کر کے بابِ جبرئیل سے باہر کو آ رہے تھے، اُس وقت اژدہام کی کثرت کی وجہ سے تم نے یہ تھیلی میرے پاس امانت رکھوائی تھی  جس کی مہر پر لکھا ہوا ہے… مَن عَاملَنَا رَبَحَ (جو ہم سے معاملہ کرتا ہے، نفع کماتا ہے)“۔ اس نے کہا، یہ لو اپنی تھیلی واپس۔ ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، میں نے اُس تھیلی کو کبھی اس سے پہلے دیکھا بھی نہیں تھا۔ اس کو لے کر میں گھر واپس آیا، عشاء کی نماز پڑھی، اپنا وظیفہ پورا کیا، اور اِسی سوچ میں جاگتا رہا کہ آخر یہ قصہ کیا ہے؟ اِسی کشمکش میں آنکھ لگ گئی، تو میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواب میں زیارت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا…”اے ربیع، آخر ھم کتنے گواہ اِس پر قائم کریں کہ تُو نے حج کیا ہے؟ تُو مانتا ہی نہیں، بات یہ ہے کہ جب تُو نے اُس عورت پر جو میری اولاد میں سے تھی، خرچ کیا اور اپنا حج کا ارادہ ملتوی کیا، تو اللہ نے اس کا نعم البدل تجھے عطا فرمایا۔ اللہ نے ایک فرشتہ تیری صورت بنا کر، اُس کو حکم دیا کہ وہ قیامت تک ہر سال تیری طرف سے حج کیا کرے اور دنیا میں تجھے یہ عوض دیا کہ چھ سو درہم کے بدلے چھ سو دینار (اشرفیاں) عطاء کیں“۔ ربیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، جب میں سو کر اٹھا تو اس تھیلی کو کھول کر دیکھا تو اس میں چھ سو اشرفیاں موجود تھیں۔ (رفیق الحرمین)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی ﷺ ، اور نبی ﷺ  کو عزیز ہر شئے سے عقیدت و احترام رکھنے کی سعادت عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ



Wednesday, July 2, 2025

کچھ فرائض کی ادائیگی ہی کافی سمجھتے ہیں

 

کچھ فرائض کی ادائیگی ہی کافی سمجھتے ہیں، کچھ سنت موکدہ بھی پڑھتے ہیں، اور کچھ سنت غیر موکدہ اور نوافل بھی پڑھتے ہیں۔ کچھ صرف پانچ نمازوں تک رہتے ہیں، اور کچھ تہجد گزار ہو جاتے ہیں۔ کچھ ان سب کے بعد بھی نوافل پڑھتے ہیں۔

یہ جو بعد والے نوافل ہیں یہ بڑی مزیدار عبادت ہے۔ نمازوں کی حلاوت اور لذت محسوس کرنی ہو تو ان نوافل میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ 

آپ تصور کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس عبادت کا کتنا اجر عطا فرماتا ہو گا۔ شائد تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ محبت ہی محبت ہے۔ ظاہر ہے محبت کا جواب تو محبت ہی ہو گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقویٰ بھی ایسی ہی خوبصورت فیلنگ ہے۔ بلکہ بہت ہی خوبصورت فیلنگ ہے۔ مجھے تقویٰ کا واقعہ جہاں بھی کسی بزرگ سے مرقوم ملے میں پڑھ لیتا ہوں۔ ایسے واقعات بہت انسپیریشنل ہوتے ہیں۔ بندے کا دل کرتا ہے اس دنیا میں قدم رکھنے کو۔ 

تقویٰ کے زیادہ تر واقعات حرام اور حلال سے متعلق ہیں، کہ بندہ کتنا چوکنا، کتنا ہوشیار،کتنا باریک بین ہو سکتا ہے اپنے معاملات اور عادات کے بارے میں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج میں نے ایک واقعہ پڑھا ہے:

حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد گرامی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران ایک بوڑھی عورت آئی اور اس نے میرے والد صاحب سے ایک مسئلہ پوچھا: 

ذرا توجہ سے سنئے گا!

یہ مسئلہ پوچھا کہ میں روئی کاتتی ہوں۔

 میں ایک رات چھت کے اوپر بیٹھ کر روئی کات رہی تھی۔ 

حکومتِ وقت کی پولیس کا داروغہ گلی میں سے گزرا، اس کے ساتھ روشنی کا بڑا انتظام تھا، وہ وہاں کسی سے بات کرنے کے لیے رک گیا، جب روشنی بہت زیادہ ہو گئی اور مجھے روئی اچھی طرح نظر آنے لگی تو میں نے سوچا کہ میں ذرا جلدی کات لوں۔ 

چنانچہ میں نے جلدی جلدی روئی کاتی۔ 

جب وہ داروغہ ابنِ طاہر چلا گیا تو بعد میں مجھے خیال آیا کہ ان کا پیسہ تو مشتبہ قسم کا ہوتا ہے اور میں نے اس کی روشنی سے فائدہ اٹھایا ہے، اب یہ روئی میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ 

امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا:

 تم اس ساری روئی کو صدقہ کر دو، اللہ تمہیں اور رزق عطا فرما دے گا۔

 حضرت عبداللہؒ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہوا۔ 

جواب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنی مقدار اس روشنی میں کاتی اتنا صدقہ کرو، لیکن ابا جی نے فرمایا کہ ساری روئی صدقہ کر دو۔ 

اس کے بعد وہ عورت چلی گئی۔

کہتے ہیں کہ دو چار دن بعد پھر وہی بوڑھی عورت آئی اور کہا: 

جی میں نے امام صاحب سے مسئلہ پوچھنا ہے۔ چنانچہ وہ امام صاحب کے پاس جا کر مسئلہ پوچھنے لگی کہ میں رات کو چراغ کی روشنی میں روئی کاتتی ہوں تو کبھی کبھی چراغ کا تیل ختم ہو جاتا ہے، تو چاند کی روشنی میں کاتنے بیٹھ جاتی ہوں، چراغ کی روشنی میں روئی صاف نظر آتی ہے اور چاند کی روشنی میں صاف نظر نہیں آتی۔

 تو اب بتائیں کہ جب میں گاہک کو روئی بیچوں تو کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ یہ چراغ کی روشنی میں کاتی گئی ہے یا چاند کی روشنی میں کاتی گئی ہے؟

امام صاحب نے فرمایا، ہاں تمہیں بتانا پڑے گا۔ 

اس کے بعد وہ دعا دے کر چلی گئی۔

فرماتے ہیں کہ جب وہ چلی گئی تو امام صاحب بھی اس کا تقویٰ دیکھ کر حیران ہوئے، اور مجھے فرمایا کہ اس عورت کے پیچھے جاؤ اور دیکھو تو سہی کہ یہ کس گھر کی عورت ہے۔ حضرت عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ جب میں پیچھے گیا تو وہ بشر حافیؒ کے گھر میں داخل ہوئی، 

پتہ چلا کہ یہ بشر حافیؒ کی بہن تھی جس کو اللہ نے اتنی تقویٰ بھری زندگی عطا فرمائی ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی زمانے میں، میں ان واقعات سے بہت متاثر ہوتا تھا۔ میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا تھا ایسے واقعات۔ میں یہ نہیں کہتا یہ ہر ایک کو پڑھنے چاہئیں، لیکن یہ کہتا ہوں، جو متاثر ہوتا ہے اسے ضرور پڑھنے چاہئیں۔ بس وہ اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ ہے۔ 

مجھے بڑا مزہ آتا ہے ان واقعات میں۔ ایک عجیب سی خوشی اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ میں تھوڑا تھوڑا اس کیفیت کو محسوس کر سکتا ہوں، جو حضرت بشر حافیؒ کے گھر کی اس بڑھیا کی ہوتی ہو گی۔ بندہ ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ میرے دل میں بسا ہے، اور میں لمحہ لمحہ اس کے قرب میں زندگی بسر کر رہا ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تقویٰ کی حلاوت نصیب فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Tuesday, July 1, 2025

پچھلے دنوں مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ

 

پچھلے دنوں مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ کی سیرت زیر مطالعہ رہی۔ بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ دن بہت خوبصورت تھے۔ بعد میں اور بھی حضرات کی سیرت کا مطالعہ شروع کیا لیکن جو وقت مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ کے ساتھ گزرا تھا، اس کا جواب نہیں تھا۔ نئے بزرگ بھی کسی طرح سے کم نہیں تھے، لیکن وہ جو لاہوریؒ صاحب سے انسیت پیدا ہو چکی تھی، وہ پیدا ہونے میں شائد وقت درکار تھا۔ 

آج میں نے مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ کی مجلس ذکر پڑھنی شروع کی ہے۔ جلد پنجم۔  وہ کچھ دن پہلے والا کیف و سرور چھا رہا ہے طبیعت پر۔ بڑا اچھا لگ رہا ہے۔ ان کا لب و لہجہ دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں سمجھتا تھا، کہ بزرگوں کی ان سوانح میں کوئی تاثیر ہوتی ہے، جو انسان کو عمل پر اکساتی ہے، آمادہ کرتی ہے۔ وہی انسان ہوتا ہے، لیکن بزرگوں کے حالات زندگی پڑھ کر اس میں عمل کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسے نیکی کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کتنی خوبصورت فیلنگز ہیں۔ (گھر میں مدرسہ شروع کرنے کا خیال مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ کی ہی کوئی کرامت ہو سکتی ہے)۔

بزرگوں کی کتابیں انسپیریشنل تو ہوتی ہی ہیں، انہیں پڑھ کر اچھے اور نیک اعمال کی رغبت اور محبت محسوس ہوتی ہے، لیکن ایک چیز مجھے اور سمجھ آئی ہے۔ میں ابھی عشاء پڑھ رہا تھا، تو مولینا احمد علی لاہوری صاحبؒ کا خیال آ گیا۔ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب میں ان کی سیرت پڑھ رہا تھا، کتنے خوبصورت دن تھے۔ پھر مجھے خیال آیا، ان دنوں میں بہت سی فضول باتوں سے دور رہا۔ ٹائم ضائع کرنے والی بہت سی باتوں سے پیچھا چھوٹ گیا۔ اور کمال کی بات یہ تھی، کہ ابھی تک چھوٹا ہوا تھا۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ میں فیس بک کے علاوہ تمام سوشل میڈیا سے جان چھڑا چکا تھا۔ 

آج مجھے لگا جیسے یہ ان نیک بزرگوں کی برکتوں کا نتیجہ تھا، کہ میرے جیسا آدمی بھی ان غیر ضروری باتوں سے دور ہو گیا۔ جن نوجوانوں اور لوگوں کو ضرورت ہے، ان کی تو بات اور ہے، لیکن میری عمر کے انسان کے لئے تو کوئی ایک سوشل میڈیا سائٹ ہی بہت ہے۔ 

شائد یہ برکت ہی انسپیریشن ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں ہم دنیا کے کاموں سے آخرت کے منافع کی توقع رکھنے لگ جاتے ہیں، لیکن شائد ایسا ٹھیک نہیں ہے۔ 

آخرت آخرت ہی ہے، اور دنیا دنیا ہی ہے۔ اگر دھیان اور نیت آخرت سے ہٹ جائیں، تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر بزرگوں کے قریب ہونے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ