Saturday, June 28, 2025

ہم عام طور پر اپنے ملک اور لوگوں


 ہم عام طور پر اپنے ملک اور لوگوں کے بارے میں بڑے بڑے نیگیٹو کومنٹس دے جاتے ہیں۔ ایک فرد یا شہری کی ذرا سی ذاتی غلطی پر پوری قوم، پورے ملک کو تنقید کا نشانہ بنا جاتے ہیں۔ اداروں کے بارے میں نئی نئی بے اعتمادی پھیلانے سے بھی نہیں چوکتے۔ 

یہ مجموعی طور پر ایک منفی رویہ ہوتا ہے، جو ہمیں اپنے آپ کو دل ہی دل میں غلط، بزدل، بے ضمیر، بے وقوف وغیرہ سمجھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ 

پھر کبھی دریائے سوات میں پیش آنے والے حادثے جیسا کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے، کہ ہماری منفی ذہنیت اور بے جا تنقید ہمیں کس قدر کھوکھلا کر چکی ہوئی ہے۔

پندرہ اٹھارہ بندے دریا میں پھنسے ہوئے ہیں، اور ان سے بھی زیادہ کنارے پر موجود ہیں، لیکن کسی میں کوئی ترکیب، کوئی حل ڈھونڈنے کی عقل نہیں آتی۔ 

انہی لوگوں نے اگر اپنی تعریف سنی ہوتی، اپنے آپ کو بہادر، باضمیر، ذمہ دار اور عقلمند سنا ہوتا، اپنے ملک اور لوگوں کے بارے میں اعتماد سیکھا ہوتا، تو شائد انہیں اس مشکل سے نکلنے کا کوئی طریقہ، یا ترکیب سوجھ جاتی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ بہت ہوتا ہے دریا کا پاٹ عبور کرنے کے لئے۔ اگر رسی موجود نہیں تھی تو رسی بنائی بھی جا سکتی تھی۔ جو لوگ دیکھتے رہے، ان میں سے کوئی تیراک بھی ہوں گے۔ 

بات صرف اتنی ہے، کہ اگر ان لوگوں کی پرورش مثبت ذہنیت سے کی ہوتی، انہیں مسائل سے لڑنا سکھایا ہوتا، مسائل کا حل ڈھونڈنے کی تربیت دی ہوتی، تو یہ سب ہیرو ہوتے۔ یہ سب کوئی ترکیب ڈھونڈ نکالتے۔ یوں بے بسی سے دیکھتے نہ رہتے ایک دوسرے کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ملک، اپنے لوگوں، اپنے اداروں پر بے جا تنقید سے باز فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Wednesday, June 25, 2025

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں

 

میرے مدرسے سے جب بچے اٹھ کر جاتے ہیں، تو ایسے لگتا ہے جیسے میں کسی اور ہی دنیا سے واپس آ رہا ہوں۔ کیسی خوشی اور خوبصورتی کی دنیا ہوتی ہے بچوں کے قرآن پاک پڑھنے کی۔ میرے استاد محترم حضرت سید غفران علی شاہ صاحب کوئی پچھلے پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، اور صبح و شام پڑھا رہے ہیں، کیسی  فیلنگز ہوں گی ان کی۔ میں جب انہیں دور سے دیکھتا ہوں، تو ان کے پورے وجود کے گرد ایک نورانی ہالہ نظر آتا ہے۔  

قرآن پاک پڑھانے کی فیلنگز ایسی خوبصورت ہوں گی، اس کا مجھے کچھ اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ یہ تو سب سے ہی اعلیٰ ہیں۔ قرآن پاک پڑھنا، حفظ کرنا، سب بہت اچھا تھا ، لیکن قرآن پاک پڑھانا تو کمال ہی ہو گیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں ابھی مدرسہ پوری طرح ایسٹبلش نہیں ہوا، پوری طرح ایسٹیبلش ہو جائے گا، باقاعدہ پچیس تیس بچے بیٹھے ہوں گے تو پتہ نہیں کیا عالم ہو گا۔ میں تو تصور کر کے ہی پھولا نہیں سماتا۔ اللہ تعالیٰ نے کیسی مہربانی کی ہے مجھ پر۔ ذالک فضل اللہ، یوتیہ من یشاء۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ 

میں یہ سب آپ لوگوں سے اس لئے شئیر کر رہا ہوں، کہ ایک تو میرا یقین ہے، کہ اچھی باتیں شئیر کرنی چاہئیں، اور دوسرا یہ کہ اگر آپ میں سے بھی کسی کا دل چاہ رہا ہو تو شروع کر لے، بہت اچھا ایکسپیرئنس ہے۔ بس اللہ تعالیٰ یہ کیف و سرور عطا فرماتا رہے ، اس جیسی بات نہیں ہے اور کوئی۔ 

یہ دنیا قرآن پاک پڑھنے پڑھانے میں کتنی خوبصورت ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو تدریس قرآن پاک کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Monday, June 23, 2025

آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا

 

آج میرے مدرسے کا پہلا دن تھا۔ میرے بیوی بچوں نے کہا کہ آپ ساری عمر سوچتے ہی رہے ہیں، بس اب شروع کر دیں۔ اپنے گھر کے نچلے پورشن میں شروع کر دیں۔ ابھی اسی طرح شروع کر دیں۔ ہم قرآن پاک، اور نورانی قاعدے، اور یسرنا القرآن وغیرہ کا بندوبست کر لیں گے کبھی۔ کوئی چٹائی اور دری بھی آ جائے گی، کوئی فلیکس بھی لگا لیں گے مدرسے کے نام کی، بس ابھی آپ شروع کر دیں۔ 

میری بیوی ایک ہمسائی کو کہہ آئی کہ آپ اپنے بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھنے کے لئے بھیجیں۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے فورا حامی بھر لی۔ بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا، کہ شاہ جی سے کہیں کچھ بڑی بوڑھیوں کے لئے بھی وقت نکالیں، ہمیں بھی ضرورت ہے دہرائی کی، اور اچھی باتیں سیکھنے کی۔ 

میں حیران تھا کہ اتنا میڈیا اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جو زندہ انسان سے، اپنے سامنے بیٹھے ہوئے انسان سے سننے کی بات ہے، وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا، کہ ایک بار ایک کمپنی کے مالک نے ایک مولوی صاحب سے درخواست کی کہ وہ صبح نو بجے اسے کچھ سبق دے جایا کریں، اس نے بچپن میں قرآن پاک نہیں پڑھا ہوا۔ وہ حیران رہ گیا جو اس کی کمپنی کے آدھے سے زیادہ لوگ اسی طرح کے نکلے۔ انہوں نے بھی بچپن میں نہیں پڑھا تھا۔ اور کچھ نے پڑھ کر کبھی دہرایا نہیں تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال اگر اللہ تعالیٰ یہ خوشی زندگی بھر کے لئے دے دے تو کیا ہی بات ہو جائے، بچے جب اونچی آواز میں قرآن پاک پڑھ رہے تھے، دہرا رہے تھے، تو جیسے میری روح ساتویں آسمان پر تھی۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مجھے تو ویسے ہی مدرسے کے بچوں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے بعض دفعہ۔ یہ تو واقعی میں سنائی دے رہی تھی۔ بہت ہی خوبصورت طریقہ تھا بچوں کے پڑھنے کا۔ میرے تو دل میں اتر گیا۔ 

میں تو کہوں گا آپ بھی کسی نہ کسی کو قرآن پاک پڑھانا شروع کر دیں اپنے ارد گرد، یا کسی سے پڑھنا شروع کر دیں۔ دونوں ہی تجربے بے مثال ہیں۔ 

میں نے بچوں کو کہا ہے کہ میں آپ سے انگلش بھی بولوں گا اور عربی بھی۔ آپ قرآن پاک کے دو تین لفظوں کا مطلب بھی یاد کر لیا کریں گے ہر روز۔ 

اور میں نے انہیں کہا کہ اپنے آپ کو ہر حالت اور ہر حال میں ایک اچھا مسلمان سمجھنا ہے۔ 

میں نے ایک ایک لفظ پر ان کی تعریف کی، کہ وہ بہت اچھا پڑھتے ہیں، ان کا حافظہ بہت اچھا ہے، انہیں یاد بہت جلدی ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد سارا قرآن پاک پڑھ لیں گے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کی خوش نصیبی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے

 

پچھلے دنوں میں گیجٹس اور وجٹس کے کوڈ لکھ رہا تھا، تو ایک بات پر بڑا حیران ہوتا تھا، کہ ایک کوڈ ایک بلاگ پر بہت اچھا چلتا تھا، لیکن دوسرے بلاگ پر فیل ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی، کہ اس بلاگ پر استعمال کیے ہوئے دوسرے کوڈ اس سے کمپیٹیبل نہیں ہوتے تھے۔ 

پھر ایک اور بات بڑی عجیب ہوتی تھی، کہ ایک کوڈرائٹر کو کوئی پرمپٹ دیتا تھا، اور پہلی بار وہ کوڈ لکھتا تو بالکل عجیب سا، جو چل ہی نہ پاتا میرے سسٹم پر۔ لیکن انہی پرمپٹس پر دوسری بار لکھنے کو کہتا، تیسری، چوتھی، پانچویں بار لکھنے کو کہتا تو بہت عمدہ کوڈ سامنے آتا۔ جو میرے سسٹم پر بہترین چل رہا ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں اب اتنا عقلمند ہو جانا چاہئے، اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انسانوں میں بھی کمپیٹیبلٹی ہوتی ہے۔ ایک انسان ایک جگہ پر اچھا پرفارم نہیں کرتا، لیکن دوسری جگہ پر اچھا پرفارم کرتا ہے۔ ورکرز، ایمپلائیز، کوورکرز، باس، ان سب کا بھی یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک کمپنی سے ایک ورکر کو نکال دیا جاتا ہے، لیکن دوسری کمپنی میں وہی ورکر حیران کر دیتا ہے اپنے کام سے۔ ہمیں اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو مارجنز دینے چاہئیں۔ ہمیں رعائتیں اور کنسیشنز دینے چاہئیں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ بہت سے لوگ صرف ہماری صحبت، ہمارے ساتھ، ہماری کمپنی کی وجہ سے غلط پرفارم کر رہے ہیں، غلط چل رہے  ہیں۔ اگر وہ کسی اور جگہ کسی اور کے ساتھ ہوتے تو بہت اچھا پرفارم کرتے۔ بعض دفعہ میاں بیوی محسوس کرتے، کہ اگر یہی لائف پارٹنر کسی دوسرے کی زندگی میں ہوتا تو کتنا قابل رشک ہوتا، کتنا خوبصورت چلتا۔ 

اللہ تعالیٰ نے ہماری کمپوزیشن میں ایک چیز رکھی ہے، جو یہ طے کرتی ہے، کہ ہماری زندگی میں کون سے لوگ اور چیزیں آئیں گی۔ کیسے راستے اور کیسی ٹریفک آئے گی۔ 

آپ کبھی غور کریں، کہ کروڑوں اربوں لوگوں میں سے آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ آئے ہیں۔ ایک ہی طرح کے تقریبا۔ آپ دیکھتے اور سنتے تو ہزاروں لوگوں کو ہیں، لیکن آپ کی زندگی میں وہی چند سو لوگ ہوتے ہیں۔ ایون آنلائن ورلڈ میں بھی۔ ہزاروں ویبسائٹس ہیں، کروڑوں یوزرز ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں، جو کبھی آپ کے سامنے آ جائیں تو آپ حیران ہو جائیں، کہ یہ اب تک کہاں تھے۔ لیکن آنلائن ورلڈ میں بھی محض چند لوگ، چند گروپس، چند ویبسائٹس ہوتی ہیں، جو آپ کے سامنے آتی ہیں۔ ہزاروں گروپس ہیں جو سامنے آ جائیں تو آپ خوشی کے مارے اچھل پڑیں، لیکن وہ آپ سے اوجھل ہیں، وہ آپ کے لئے نہیں ہیں۔ اسے انٹرنیٹ کی دنیا کہتے ہیں۔ چیزیں اور انسان کس نوعیت کی بنا پر کونیکٹ ہوتے ہیں، ہمیں ابھی یہ چیز ڈسکور کرنی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں کو کمپیٹیبل لوگوں اور چیزوں سے مزین فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Friday, June 20, 2025

کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی

 

”کاش کوئی مقروضوں کی نفسیات کا بھی ذکر کرے، کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، وہ قرض لے کر ناران کاغان کیوں جاتے ہیں، وہ عقیقے سالگرہیں کرتے ہیں، لیکن پیسے کیوں نہیں لوٹاتے۔ میں اکثر کہتا ہوں، پیسوں کی تنگی کی اذیت جو سفید پوش برداشت کرتے ہیں، وہ شائد ہی کوئی کرتا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں قرض لینے کا حق صرف اسے ہے، جس کے گھر میں تین دن کا فاقہ ہو، جس کے پاس ایک جوڑا کپڑے اور دو برتن ہوں، جو کرائے کے مکان میں رہتا ہو، نہ فریج ہو، نہ واشنگ مشین، نہ موٹر سائیکل، وغیرہ۔ ہم سمجھتے ہیں قرض صرف ایسے ہی شخص کو دینا چاہئے، جو اگلے لمحے مرنے والا ہو۔ میں کہتا ہوں کوئی اپنے بیوی بچوں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لئے بھی قرض لے کر سالگرہ کر لیتا ہے، عقیقہ کر لیتا ہے، ناران کاغان ہو آتا ہے۔ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ جاب ہوتی ہے، گھر ہوتا ہے، فیملی ہوتی ہے۔ بس کچھ عرصے سے تنخواہ نہیں بڑھی ہوتی، چالیس چالیس دن بعد تیس تیس دن کی تنخواہ مل رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے، شائد کچھ عرصے تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے یہ پتہ ہی نہیں ہوتا، کہ جن لوگوں کے سامنے وہ ہنس ہنس کر اپنی عزت نفس بچانے کی کوشش کر رہا ہے، اور جو لوگ اس سے پیسوں کا تقاضہ کر رہے ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں، وہ بے حس ہے، بے شرم ہے، جو مقروض ہونے کے باوجود مسکرا رہا ہے، اترا رہا ہے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا، کہ وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں وہ اپنی عزت نفس بچا لے، اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ کوئی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا، کہ اس کی محبت اور وفاداری، یا بیوی کی ہٹ دھرمی اور ضد، یا اس کی نرم دلی، اور بیوی بچوں کی خود غرضی، اسے یہ سب جینے پر مجبور کر رہی ہے۔ میرے خیال میں چند چور اچکوں کے علاوہ، کوئی کسی سے مانگنا نہیں چاہتا۔ بندہ جواری نہ ہو، شرابی نہ ہو، اور کوئی نہ کوئی کام دھندہ بھی کر رہا ہو، لیکن پھر بھی مانگ رہا ہو، تو سمجھ لیں اس کی بیوی اس کے بس میں نہیں ہے۔ 

ایسی پوسٹ پڑھ کر ہر وہ شخص اپنے بیوی بچوں پر سختی کر سکتا ہے، انہیں چھوڑ سکتا ہے، انہیں مار پیٹ سکتا ہے، اپنے باس سے لڑ سکتا ہے، نوکری چھوڑ سکتا ہے، چوری چکاری کر سکتا ہے، جو یہ سب کچھ اپنی خوشی کے لئے نہیں، اپنے بیوی بچوں کی خوشی کے لئے کر رہا ہے“۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں عام طور پر کومنٹ نہیں کرتا لیکن یہ اوپر والا کومنٹ میں نے ایک پوسٹ پر کیا ہے، جس کا مفہوم تھا، کہ لوگ اپنا قرض نہیں لوٹاتے، لیکن سیر سپاٹے اور ہلے گلے پر نکل جاتے ہیں ۔ 

چند ایک کو چھوڑ کر، اکثر مقروض بے بس ہوتے ہیں۔ ان میں چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حالات ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہر آنے والا دن ان کی سختی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ ان کے خرچے ہر صورت میں ان کی آمدنی سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں، چاہے ان کی آمدنی دو کروڑ ہو جائے۔ ان کے رشتہ دار، ان کی ضرورتیں، ان کی آفتیں، ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں۔ ان کے بیوی بچے ان کے کہنے میں نہیں ہوتے۔ 

انسان نرم دل ہو، اور اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ اپنے بچوں کی خوشی عزیز ہو، تو وہ قرض ضرور لے گا۔ وہ اپنی بیوی کے چہرے پر کچھ لمحوں کی خوشی دیکھنے کے لئے چوری چھپے قرض کا تحفہ ضرور لائے گا۔ اس کا خیال ہوتا ہے، کہ حالات بس ایک دو مہینے، دو چار مہینے، ایک دو سال کے لئے ہی خراب ہوتے ہیں، پھر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کبھی اسے ضرورت سے زیادہ پیسے ملیں گے، تو وہ سب قرض لوٹا دے گا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ بیس پچیس تیس سال گزر جاتے ہیں۔ سخت دل، ظالم، ضدی، انا پرست قسم کے لوگ شائد ٹھیک رہتے ہیں۔ لیکن نرم دل۔ نرم دلی انسان کو بہت بری طرح مرواتی ہے۔ ایمانداری، وفاداری، سچ، نرم دلی وغیرہ کے امتحان ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، میں نے ساری زندگی ان دو ہاتھوں کا مطالعہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس موضوع پر کوئی غیبی ڈاکٹرائن لکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن میں جو لینے والے کا امیج بٹھایا ہوا ہے، وہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ لینے والے اور ضرورتمند کی نفسیات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

میں یہ نہیں کہتا کہ دینے والے نہیں ہیں، بہت ہیں، ہماری توقع سے بھی زیادہ ہیں، اور بہت اچھے ہیں، بہت نیک دل ہیں، لیکن بیچارے کسی ایسے امیج میں پھنسے ہوئے ہیں، کہ اس سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو دینا چاہئے۔ یہ جو ان کو مستحقین کی شکل دکھا دی گئی ہے، کہ وہ ایسے ہوتے ہیں، اس شکل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ارادوں کو نیک بنائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ

 




Thursday, June 19, 2025

زندگی کی خوبصورتی یہی ہے


 زندگی کی خوبصورتی یہی ہے کہ بندہ کسی صاحب نظر، کسی ولی کے پاس بیٹھنے لگے۔ زندگی کی خوشی بھی یہی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی خوشی ہے نہ خوبصورتی۔ میں نے جو وقت والد صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو وقت ڈاکٹر صاحبؒ کے ساتھ گزارا، اور جو ڈاکٹر صاحبؒ کے کہنے پر دوسرے اللہ والوں کی زیارت میں گزارا، بس وہی وقت زندگی محسوس ہوتا ہے۔ باقی تو بس ایسے ہی ہے۔ اگر زندگی ان اللہ والوں سے خالی ہوتی تو کتنی ویران ہوتی۔ باقی تو کچھ نہیں ہے۔ آج بھی اسی تصور میں گھومنا پھرنا اچھا لگتا ہے۔

یونہی حسن کو چھوڑنے بس سٹاپ تک گیا تو دل کیا ڈاکٹر صاحبؒ کی قبر پر ہو آؤں۔ کافی قریب بھی پہنچ گیا، لیکن پھر واپس آ گیا۔ 

ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت میں جو محسوس ہوتا تھا، وہ اگرچہ اب نہیں رہا، لیکن اس دل میں کہیں یاد تو ہے نا اس کی۔ کبھی ڈاکٹر صاحبؒ کی صحبت کا نور، کبھی ان کے قرب کی خوشبو تو بسی ہی تھی نا اس دل میں۔ 

کبھی کبھی سوچتا ہوں بہت کچھ کھویا ہے میں نے۔ وہ خوشبو جو انیس سو اٹھاسی انانوے میں محسوس ہوا کرتی تھی ڈاکٹر صاحبؒ سے، اگر میں زندگی کے دوسرے تجربات میں نہ پڑتا، اسی خوشبو پر اکتفا کرتا، تو میرے اپنے وجود کا کیا عالم ہوتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صحبت اولیاء نصیب فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, June 15, 2025

مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا

 

مجھے اور کوئی مذہب نظر نہیں آتا جس نے جسم کی صفائی ستھرائی، یا نفاست اور شائستگی پر اتنی توجہ دی ہو جتنی اسلام نے دی ہے۔ 

ایمان حضور پاک ﷺ  کے نور کی ایک کرن ہے، جو توجہ دینے سے ترقی کرتا ہے۔ بندہ اپنے آپ حضور پاک ﷺ  کی جسمانی سنتوں کو اپنانے لگتا ہے، ان کے حلیہ مبارک میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ 

اگر آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے، کہ آپ پاک صاف رہیں، آپ کے جسم پر کوئی نجاست نہ ہو، آپ غسل سے ہوں، آپ کے کپڑے پاک صاف ہوں، کوئی میل تک نہ ہو ان پر، اور آپ وضو سے ہوں، اور آپ نے داڑھی شرعی ترشوائی ہو، بال برابر کٹوائے ہوں، اور ناخن تراشے ہوں، اور دانت باقاعدہ صاف کیے ہوں، اور آپ کی خواہش ہو آپ سفید لباس پہنیں، اور خوشبو لگائیں، اور سرمہ لگائیں، اور سر پر ٹوپی یا عمامہ پہنیں، تو آپ اسلامی روحانیت میں داخل ہو چکے ہیں۔ 

اور اگر آپ یہ سب کر بھی لیں تو ہو سکتا ہے کسی مقام پر بھی براجمان ہوں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان پر توجہ دینے کی خوش قسمتی عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Saturday, June 14, 2025

بس بندے کو


 بس بندے کو 

پاکی پلیدی سے، 

حلال حرام سے، 

جائز ناجائز سے، 

سچ جھوٹ سے، 

منزہ مکروہ سے، 

حیا فحاشی سے، 

ممیز کرنی آ جائے، یعنی ان سب کو علیحدہ علیحدہ کرنا آ جائے، ان میں فرق کرنا آ جائے، ان کی پہچان آ جائے، 

اور بندے کے دل و دماغ میں اول الذکر کی خواہش اور موخر الذکر سے گریز پیدا ہو جائے، تو بندہ سمجھ لے وہ روحانیت میں داخل ہو چکا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو روحانیت کی خواہش اور پہچان عطا فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


بات روحانی لوگوں کی کر رہا ہوں

 

بات روحانی لوگوں کی کر رہا ہوں۔ 

تین ذہنی حالتیں بندے کے لئے بڑی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ 

ایک چلتے پھرتے کھانا پینا۔ مونگ پھلی، گنڈیریاں، پان تمباکو وغیرہ۔ برگر، جوس، وغیرہ بھی۔ 

دوسری قمیص اتار کر باہر آنا۔ گھر سے باہر آنا تو نقصان دہ ہے ہی ہے، کچھ لوگوں کے لئے گھر میں رہ کر بھی قمیص اتارنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ چاہے تہبند، یا شلوار، یا لانگ شارٹ وغیرہ پہنا ہی ہو۔ 

تیسری بات بے بات ہنسنا، مذاق کرنا، ہاتھ پر ہاتھ مارنا، لطیفے سنانا، غیر سنجیدہ حالت میں رہنا۔ متبسم رہنا اور بات ہے۔ غیر سنجیدہ یا عامیانہ پن نہیں ہونا چاہئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ذہنی حالتیں بندے کو غیر مستقل مزاج یا استقامت سے محروم بنا دیتی ہیں۔ بندہ اللہ تعالیٰ سے دور اور شیطان کے قریب ہو جاتا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی بدبختی سے محفوظ فرمائے، آمین۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ


Sunday, June 1, 2025

صراط مستقیم یعنی استقامت والا راستہ


 صراط مستقیم، یعنی استقامت والا راستہ، یعنی جس پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے وہ راستہ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب راستے کا ذکر ہوتا ہے تو سفر کا تصور لازمی ہے۔ جب سفر کا تصور آتا ہے، تو ایک مقام سے دوسرے مقام کا تصور لازمی ہے۔ مقامات کی شکل و صورت، اور حالت کا تصور لازمی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کے راستے پر سفر، جسمانی بھی ہے، دماغی بھی، اور روحانی بھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منفی ذہنیت سے مثبت ذہنیت کی طرف سفر

گندگی سے پاکیزگی کی طرف سفر 

بری جگہوں سے اچھی جگہوں کی طرف سفر 

تکلیف سے خوشی کی طرف سفر

مشکلوں سے آسانیوں کی طرف سفر

اندھیروں سے اجالوں کی طرف سفر

شکوک و شبہات سے یقین کی طرف سفر

غفلت سے ہوشیاری کی طرف سفر

نفرت سے محبت کی طرف سفر

خطرے سے حفاظت کی طرف سفر

دنیا سے آخرت کی طرف سفر

اختیار سے بے اختیاری کی طرف سفر

اللہ تعالیٰ کے لئے غیر متوجہ زندگی سے اللہ تعالیٰ کے لئے متوجہ زندگی کی طرف سفر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دل و دماغ کو صراط مستقیم پر سفر کا احساس عنایت فرمائے، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: حاوی شاہ